fina-sherosokhan-animat.gif

Haider Qureshi by Zahoor Awan

bg5haider-qureshi.jpg

جرمنی کا ایک اردو رسالہ    :تحریر۔ڈاکٹر ظہور عوان (رسالہ ـآج  بتاریخ ۲۵ جولائی ۲۰۱۰)

میرے سامنے میرے ایک دوست حیدر قریشی کا ادبی رسالہ نمبر 15 ’’جدید ادب‘‘ رکھا ہے۔ حیدر قریشی جرمنی کے شہر فرینکفرٹ میں رہتے ہیں‘ اردو کے بے مثال ادیب‘ شاعر‘ ماہیا نگار‘ مدبر‘ نقاد پتہ نہیں کیا کچھ ہیں‘ وہ میرے استاد پروفیسر ناصر کے بھانجے اور داماد ہیں‘ بس یوں سمجھیں ادب ہی ان کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ دفتر سے آتے ہیں تو اپنے کمرے کے کمپیوٹر کے سامنے جا بیٹھتے ہیں‘ چھ سات گھنٹے عام طور پر ادبی کام کرتے ہیں اور دفتر کی دوسرے دن چھٹی ہو تو ساری ساری رات جاگ کر کتابیں‘ رسالے‘ مضمون کمپیوٹر پر لکھتے اور بذریعہ کمپیوٹر ہی اپنی ویب سائٹ پر چڑھا کر ساری دنیا میں پھیلا دیتے ہیں۔

کام کے لحاظ سے وہ آدمی نہیں جن ہیں‘ جو لوگ کہتے ہیں کہ مصروف ہیں وقت نہیں ملتا میں ان کو حیدر قریشی کی مثال دیتا ہوں جو جرمنی کی مصروف زندگی سے وقت چرا کر بڑے بڑے کام کر رہے ہیں۔ خاکے‘ سفرنامے‘ کالم‘ مضمون‘ یادداشتیں‘ خود نوشت نجانے کیا لکھ چکے ہیں۔ ان کا جو رسالہ آتا ہے پہلے سے بہتر اور ضخیم ہوتا ہے۔ وہ کتابیں‘ رسالے بھارت سے چھپواتے ہیں اور وہیں سے اپنے دوستوں کے ذریعے اپنے دوستوں تک پہنچاتے ہیں۔ میں بیماری سے قبل اپنے آپ کو بڑا فعال و متحرک و تیز آدمی سمجھتا تھا مگر حیدر قریشی کی علمی و ادبی کارکردگی کو دیکھا تو ہار مان گیا۔

حیدر قریشی بلاشبہ یورپ و امریکہ میں اردو زبان و ادب کے سب سے بڑے لکھاری سمجھے جا سکتے ہیں۔ میں ان کو عالمی بابائے ادب کہتا ہوں‘ فرینکفرٹ میں ان کو اپنی آنکھوں سے ساری ساری رات کام کرتے دیکھا تو بقول غالب باور آیا ہے پانی کا ہوا ہو جانا۔ جب سے میرے دل کا زور ٹوٹا ہے اور اندر باہر سے گھائل ہوا ہوں تب سے حیدر قریشی کے کارناموں پر رشک آنا بڑھ گیا ہے اور میں سمجھنے لگا کہ ان کے دل کا زور شیروں ہاتھیوں جتنا ہے۔ اب جدید ادب کا شمارہ نمبر 15 آیا تو میں نے اپنی عالم بیزاری کے ہاتھوں تنگ آ کر حسب معمول ایک طرف رکھ دیا‘ میں عموماً رسالہ و کتاب کہیں سے بھی ملے فون پر رسید دیتا اور شکریہ ادا کرتا ہوں۔

جب حیدر قریشی صاحب کا فون ملا تو آواز اس طرح ہشاش بشاش اور حوصلے جوانوں کی طرح بلند۔ انہوں نے کہا رسالہ پڑھا ہے میں نے ہاں ہوں کر دی‘ انہوں نے اپنی گزشتہ سال دو سال کی بیماری قلب اور اپنی اہلیہ مبارکہ کی زندگی و موت سے کشمکش کی جو روداد سنائی تو میں نے سوچا ہر آدمی دکھ درد میں مبتلا ہے‘ کس کس کی داستان سنی جائے۔ انہوں نے کہا میرے رسالے کے صفحات 225 تا 238 پڑھ لیں آپ اپنی بیماری بھول جائیں گے۔ میں نے فون بند کر کے بادل ناخواستہ کتاب کا وہ حصہ پڑھا تو اپنی بیماری بھول گیا‘ بعد ایک مدت کے میرے ہاتھ میں کتاب دیکھ کر میرے گھر والے خوش اور حیران ہوئے‘ میں نے سب سے وہ مضمون پڑھوایا‘ اس دوران میں اپنی بیماری بھول گیا۔

حیدر قریشی کے گھرانے پر بجلی کی طرح گرنے والی بیماریوں کا حال پڑھا تو یقین نہ آیا‘ حیدر قریشی کو گزشتہ برس خواب میں کسی نے آ کر بتایا کہ وہ 3 دسمبر 2009ء کو مر جائیں گے‘ حیدر وہمی آدمی نہیں مگر موت پھر موت ہے‘ حیدر نے میری طرح وصیت لکھی اور بیماریوں کا مقابلہ کرنے کے لئے سینہ سپر ہو گیا۔ خوش قسمتی سے وہ مہذب و مالدار ملک جرمنی میں تھا‘ جہاں اس کا اور گھر والوں کا ایسا علاج ہوا کہ حیدر پھر اٹھ کے چل پڑا‘ ان کی اہلیہ 13 برس سے بیمار ہے اور علاج کروا رہی ہے۔ ان کے گردے تقریباً فیل ہیں مگر شاباش ہے

جرمنی کی فلاحی مملکت پر کہ انہوں نے مریض کو اپنی گاڑی بھیج کر روزانہ لانے لے جانے کا ذمہ بھی لے رکھا ہے‘ زیادہ ضرورت پڑے تو ہیلی کاپٹر بلا کر کسی اور بڑے ہسپتال پہنچا دیتے ہیں۔ حیدر کے دل کے تین آپریشن ہوئے‘ ان کو جسمانی تکلیف یقینا پہنچی مگر مالی مادی کسی قسم کا بوجھ ان پر نہیں پڑا۔

لاکھوں کروڑوں روپے کا علاج مفت ہو گیا اور دیکھ بھال‘ ستھرائی صفائی ایسی کہ باتیں سن کر ہی افسانوی لگیں۔ میں امریکہ کے ہسپتالوں میں کئی ہفتے گزار چکا ہوں مگر جرمنی کے ہسپتالوں کا حال پڑھا تو وہ امریکہ کو بھی پیچھے چھوڑتے نظر آئے۔

حیدر کے رسالے میں غزلیں‘ نظمیں‘ خصوصی مطالعے (ڈاکٹر وزیر آغا)‘ افسانے‘ گوشہ ایوب خاور‘ ماہیے‘ خطوط تاثرات وہ سب کچھ موجود ہے جو ادبی رسالوں کی شان اور جان ہوتا ہے۔ جو لوگ رسالے تک رسائی حاصل نہیں کر سکتے حیدر قریشی نے ان کے لئے کمپیوٹر کے ذریعے سوغات حاصل کرنے کی نوید دی ہے۔ جدید ادب رسالہ www.jadeedadab.com یا دوسرے پتے hqg786@arcor.de اور haider_qureshi2000@yahoo.com سے نکال کر حیدر قریشی کی تخلیقات و رسائل پڑھ سکتے ہیں۔

Dated : 2010-07-25 00:00:00

 

 

homepage.jpg