fina-sherosokhan-animat.gif

Daily Jung report about Heidel Burg

ہائیڈل برگ میں علامہ اقبال سے اظہار عقیدت کیلئے تقریب کا انعقاد

جرمنی کی ڈائری…مظفر شیخ: نمائندہ جنگ… دریائے نیکر کی وادی میں آباد قدیم شہر ہائیڈل برگ سے جرمنی کے پاکستانیوں کو ایک خاص نسبت ہے، مفکر پاکستان، شاعر مشرق، حکیم الامت علامہ محمد اقبال نے ایک سو دو سال قبل اپنے زمانہ طالب علمی کے دوران ڈھائی ماہ کا عرصہ یہاں گزارا تھا۔ اگرچہ یہ وقت انتہائی مختصر تھا مگر اس دوران اقبال نے جرمن زبان کی مزید سوجھ بوجھ حاصل کرکے مشہور جرمن شاعر گوئٹے اور دیگر فلسفیوں سے استفادہ کیا اور ماہرین اقبالیات کا کہنا ہے کہ جرمنی ہی میں اقبال نے غور و فکر اور فلسفہ گری کے وہ مراحل طے کئے جنہوں نے ان کی آئندہ شاعری اور فکر کی جہتیں وضع کیں جس طرح اقبال کی سوانح حیات میں ہائیڈل برگ میں قیام نظرانداز نہیں کیا جا سکتا اسی طرح جرمنی سے پاکستان اور پاکستانیوں کے روابط میں اقبال اور ہائیڈل برگ کا ذکر لازمی ہے۔ ہائیڈل برگ شہر نے بھی ایک سو سال قبل آنے والے مہمان کو فراموش نہیں کیا بلکہ اسے اعزاز سمجھ کر اپنی تاریخ کا حصہ بنالیا ہے۔ دریائے نیکر کے کنارے ایک سڑک کو ”ساحل اقبال“ کا نام دیا گیا ہے اور یہیں ایک گوشہ میں پتھر کی ایک بڑی سیل پر نیکر کے کنارے ہی لکھی گئی نظم ”ایک شام“ کا جرمن ترجمہ کندہ کیا گیا ہے۔ جس مکان میں اقبال کا قیام رہا اس کی دیوار پر ایک یادگاری تختی آویزاں ہے۔ ہائیڈل برگ یونیورسٹی کے جنوبی ایشیا انسٹی ٹیوٹ میں اقبال فیلو شپ بھی قائم ہے اور دو سال قبل جرمنی میں اقبال کے قیام کی سو سالہ سالگرہ کے موقعے پر ایک کانفرنس بھی منعقد کی گئی تھی۔ سیر تفریح کے لئے جرمنی آنے والے پاکستانیوں کی بھی ہائیڈل برگ دیکھنے کی خواہش ہوتی ہے اور یہاں رہنے والے پاکستانی اپنے مہمانوں کو ہائیڈل برگ کی سیر کروانے کو میزبانی کے فرائض میں شامل سمجھتے ہیں گذشتہ بدھ کو ہائیڈل برگ میں علامہ اقبال کے قیام کی یاد تازہ کرنے اور ان سے اظہار عقیدت کے لئے پورے دن کا ایک پروگرام منعقد ہوا جس کی ایک خصوصیت تو یہ تھی کہ کینیڈا میں مقیم مشہور اور ممتاز ادیب، شاعر، دانشور اور ماہر اقبالیات ڈاکٹر محمد تقی عابدی مہمان خصوصی تھے اور پروگرام کا ایک حصہ دریائے نیکر کے کنارے ”ساحل اقبال“ کے اس گوشہ میں سبزہ زار پر ایک نشست تھی جہاں اقبال کی یاد میں پتھر کی سل پر ان کی نظم کا ترجمہ کندہ ہے۔ منفرد انداز کی اس اولین تقریب کے محرک اور میزبان حلقہ ادب جرمنی کے بانی اور معروف شاعر سید اقبال حیدر تھے جبکہ ہائیڈل برگ یونیورسٹی کے ساؤتھ ایشیا انسٹی ٹیوٹ میں ایک تقریب اور محفل مشاعرہ بزم اہل قلم کے زیر اہتمام ہوئی جس کا انتظام نوجوان پاکستانی طلبہ اور شاعروں ارم بتول قادری اور شہزاد ارمان نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر کیا تھا۔ مقامی یونیورسٹی کے سابق طلبہ، شعبہ اردو کی سربراہ ڈاکٹر کرسٹینا اوسٹرہیلڈ اور ہائیڈل برگ و دیگر شہروں سے آئے ہوئے شائقین شعر و ادب اور عقیدت مندان اقبال نے دونوں پروگراموں میں بھرپور شرکت کی۔ ڈاکٹر سید تقی عابدی نے اپنے خطاب میں اقبال کے علمی و فکری سفر میں جرمنی کے سفرکی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ بیگم عطیہ فیضی جو 1907ء میں اقبال کے ہمراہ ہائیڈل برگ آئی تھیں اپنی یادداشتوں میں یہ شہادت دے چکے ہیں کہ یہاں پہنچتے ہی اقبال کے انداز فکر میں تبدیلی آناشروع ہوگئی تھی اور یوں لگتا تھا کہ اقبال ہائیڈل برگ کی پرسکون وادی کے لہلہاتے درختوں اور گھاس کی سرسراہٹ سے بھی فیض و وجدان حاصل کر رہے تھے۔ خود اقبال نے مکتوبات میں یہاں تک لکھا کہ ان کی روح ہائیڈل برگ کا سفر کرتی رہے گی۔ یہیں انہوں نے عظیم جرمن فلسفی اور شاعر گوئٹے اور دوسرے فلسفیوں سے ذہنی روحانی اور فکری رشتے استوار کئے اورگوئٹے کے ہی دیوان مشرق و غرب کے جواب میں پیام مشرق لکھی۔ ”ساحل اقبال“ پرگوشئہ اقبال میں بیٹھے ہوئے عقیدتمندان اقبال نے ڈاکٹر سید تقی عابدی کی کلام اقبال کے سیاق و سباق پر گفتگو ہمہ تن گوش ہو کر سنی اور اگرچہ دریائے نیکر کے اس کنارے کا وہ سکون کاروں کی بھاری ٹریفک کے شور میں دب دب کر رہ گیا ہے،بعض لمحوں میں تو یوں محسوس ہوا کہ علامہ اقبال کی روح ان عقیدتمندوں کے درمیان ہی موجود ہے، جس کے احترام میں لمحے لمحے کے لئے ٹریفک کا شور بھی تھم جاتا رہا۔شاعروں سید اقبال حیدر (فرنیکفرٹ)، شکیل چغتائی (برلن)، سمن شاہ (پیرس)، شہزاد ارمان (ہائیڈل برگ)، ارم بتول قادری (ہائیڈل برگ) اور دیگر نے موقع کی مناسبت سے اقبال پر ہی اپنا اپنا کلام سنایا۔ شاہد اقبال خان نے اپنی نوعیت کی یہ پہلی محفل منعقد کرنے پر سید اقبال حیدر کو مبارک باد دی اور توقع ظاہر کی کہ یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گا۔ ہائیڈل برگ یونیورسٹی میں 60ء کی دہائی میں اپنے والے دو سابق طالب علم ڈاکٹر فرخ بیگ اور ڈاکٹر ارشد رضوی بھی اس موقع پر موجود تھے انہوں نے اسی زمانہ میں نیکر کے کنارے کو ساحل اقبال کا نام دینے، اقبال کے رہائشی مکان پر یادگاری تختی کی تنصیب، اقبال کو جرمن زبان سکھانے والی خاتون کی تلاش اور ساحل اقبال پر کلام اقبال والی سل لگانے میں اپنی شرکت کی یادوں کوتازہ کیا۔ جب ڈاکٹر تقی عابدی جرمن شاعری اور فلسفے سے اقبال کے استفادہ اور حصول وجدان کا ذکر کررہے تھے اور شاعر و شاعرات اقبال کے ترانے اور مدحتیں گا رہے تھے تو میں سوچ رہاتھا کہ اقبال تو ڈھائی مہینے کے لئے یہاں آئے اوریہاں کے درختوں کی ہواؤں اور گھاس کی سرسراہٹ کو بھی حصول علم کا ذریعہ سمجھے لیکن کیا ہم جو اپنی زندگیاں یہاں پوری کر رہے ہیں اور ہماری جن نسلوں کو جرمنی کی یہ ہوائیں اور فضائیں گھٹی میں نصیب ہوئی ہیں اس گراں قدر موقع سے کچھ حاصل کر رہے ہیں اور کہاں تک اقبال کے فکر سے رہنمائی حاصل کر رہے ہیں۔ پاکستانیوں کو اپنی نئی نسل کو اقبال سے متعارف و شناسا کرانے کے لئے ہائیڈل برگ کے ساحل اقبال کا نظارہ ضرور کرانا چاہئے یہاں اقبال کا نام اور پتھر پر کندہ کلام اقبال ہمارے لئے صرف باعث فخر و مسرت ہی نہیں چراغ راہ بھی ہونا چاہئے۔ جرمنی میں ہر ملک اور قوم کے تارکین وطن آباد ہیں لیکن یہ اعزاز پاکستانیوں کو ہی حاصل ہے کہ ان کے ملک کا خواب دیکھنے والا بھی یہاں مہمان رہا ہے اور سچ تو یہ ہے کہ مستقبل کا مورخ جرمنی میں پاکستانیوں کی تاریخ مرتب کرے گا تو یہاں سب سے پہلے آنے والے پاکستانی کا نام ”محمد اقبال“ ہی لکھے گا۔

بشکریہ مظفر شیخ نمائیندہ اخبار جنگ
Muzaffar Sheikh
Freelance Press Correspondent, Jang Group of Newspapers
Authorized and Certified Interpreter and Translator
Frankfurt am Main / Germany
muzsheikh@yahoo.com

homepage.jpg