fina-sherosokhan-animat.gif

Qamar Rais ki Nazar

Important Note: The basic font of this website is Jameel Nastaleeq for trial purpose. Kindly instal this font on your computer and enjoy reading.

ضروری اطلاع

تجرباتی طور پر اس ویب سائٹ کا بنیادی فونٹ جمیل نستعلیق رکھا گیا ہے۔ آپ بھی درج ذیل لنک پر جائیں اور اس فونٹ کو اپنے کمپیوٹر پر انسٹال کر لیں

 

http://www.fileden.com/files/2008/12/25/2238030/Jameel%20Noori%20Nastaleeq%202.rar

وہ گہرا سمندر 

  نذر  پروفیسر قمر رئیس

پروین شیر۔ ونی پیگ

سُلگتے بیا باں میں گہرا سمندر

لُٹاتا رہا قطرہ قطرہ

وہ سیراب کرتا رہا سارے تشنہ لبوں کو

لگائے ہوئے اپنے سینے سے وہ کشتیوں کو

کنارے پہ لاتا رہا

اُس کی موجوں کے دلشاد نغمے

مسافر کی زخمی سماعت پر  مرہم

لگاتے رہے شور کی اندھیوں میں

مگر    ۔۔۔۔۔۔ آسماں کی

تپش اُس پہ حاوی ہوئی

اُس کا سارا لہو پی گئ!

یاس کے بادبانوں کو تھامے ہوئے

کشتیاں سوچتی ہیں

کہ اب پار اُتریں تو کیسے؟

وہ موجیں کہاں چھپ گئی ہیں؟

وہ گہرا سمندر کہاں کھو گیا ہے؟

سماعت کے مرہم

وہ لہروں کے جاں بخش نغمے

کہاں جا بسے ہیں؟

سُلگتے بیاباں

میں تشنہ لبی، بے بسی میں

گھرا  ایک جمگھٹ کھڑا ہے

آواز کے پھول

پروین شیر

 

ایک بے حد تناور، قداور شجر ۔۔۔۔۔ جس کی ہری بھری شاخیں بڑی فیاضی کے ساتھ دور دو ر تک پھیل گئی  تھیں، دھوپ میں تپتے ہوئے ہر آنگن میں اس کی ٹھنڈی چھاوں اُتر آئی تھی۔ جس کی آغوش سبھوں کے لئے پناہ گاہ بن گئی تھی۔

فکر کی بلندی پر ایک درخشاں مہتاب ۔۔۔ جس نے ہر آسمان پر کہکشاں کی پر نور رہ گذر بنائ  جس کی روشنی کے سہارے سب چل رہے تھے۔

ایک خوبصورت خواب۔۔۔۔ سب کے خوابوں کا رکھوالا، جس نے تعبیروں کو جواں کیا۔

سبک ہوا کا جھوکا جو اپنےہاتھوں میں علم کی خوشبو لیے گھر گھر، گلیوں گلیوں، شہروں شہروں، اور ملکوں ملکوں جا کر فضا کو معطر کرتا تھا۔

ایک مدھر آواز ۔۔۔جس کے  میٹھے لہجے کے گیتوں پر ، امن و اماں کے نغموں  پرآبشار کی گنگناہٹ، جھیل کی لہروں کی نرم ہنسی نثار ہو جاتی تھی۔ سب کو چھاوں دینے والا  وہ تناور درخت، سب کے خوابوں کا رکھوالا۔۔۔کہاں ہے؟ کہاں ہے جس نے فن کے شاخساروں کو تخلیق کی قبا بخشی۔۔۔؟ جس کے سخن کے درخشاں چراغ نے اُجالے بخشے، جس نے دوستی ،راستی اور دانشوری کا فلک بوس  رنگ محل بنایا۔ گھر  گھر کے طاقوں پر  علم کی قندیل روشن کی۔۔۔ کہاں چھپ گیا وہ ۔۔۔ ؟ جسے اب ہم نہ دیکھ سکتے ہیں نہ چھو سکتے ہیں۔ یہ کیسا سکوت طاری ہے۔۔۔ ؟ پھولوں کی پلکیں نم ہیں۔۔۔ ہوا سر جھکائے چل رہی ہے۔

فضائیں دھواں دھواں ہیں جیسے کوئی ہرا درخت جل گیا ہو۔ چاند کی بھیگی ہوئی آنکھوں سے نقرئی آنسوں بہہ رہے ہیں۔ لہروں کے ہونٹ خاموش ہیں۔ وہ تناور درخت تھک کر گر پڑا ہے ۔۔۔ لیکن ۔۔۔۔ اپنی چھاوں سبھوں کے صحن میں چھوڑ گیا۔ سب کی راتوں میں اس کا علم چاند کی طرح روشن ہے۔ سب کی  راہوں میں  اس کے نقش قدم کے چراغ ضیا خیز ہیں۔

سب کے آسمانوں پر اُس کے رنگ سخن کی شفق  روشن ہے۔ ایک ہجوم اس کے تعاقب میں رواں ہے۔ وقت کے سمندر کی لہریں اُس کے نقش پا کبھی مٹا نہ سکے گی۔اس کی صداقت کے وقار کی روشنی ہمیشہ ہمیشہ روشن رہے گی۔

اُس کی آواز کے پھول ہمیشہ تازہ رہنگے ۔۔۔۔۱

homepage.jpg