آواز
کے پھول
پروین
شیر
ایک بے
حد تناور، قداور شجر ۔۔۔۔۔
جس کی ہری بھری شاخیں بڑی
فیاضی کے ساتھ دور دو ر
تک پھیل گئی تھیں،
دھوپ میں تپتے ہوئے ہر
آنگن میں اس کی ٹھنڈی چھاوں
اُتر آئی تھی۔ جس کی آغوش
سبھوں کے لئے پناہ گاہ
بن گئی تھی۔
فکر کی
بلندی پر ایک درخشاں مہتاب
۔۔۔ جس نے ہر آسمان پر کہکشاں
کی پر نور رہ گذر بنائ جس کی روشنی کے سہارے
سب چل رہے تھے۔
ایک خوبصورت
خواب۔۔۔۔ سب کے خوابوں
کا رکھوالا، جس نے تعبیروں
کو جواں کیا۔
سبک ہوا
کا جھوکا جو اپنےہاتھوں
میں علم کی خوشبو لیے گھر
گھر، گلیوں گلیوں، شہروں
شہروں، اور ملکوں ملکوں
جا کر فضا کو معطر کرتا
تھا۔
ایک مدھر
آواز ۔۔۔جس کے میٹھے
لہجے کے گیتوں پر ، امن
و اماں کے نغموں
پرآبشار کی گنگناہٹ،
جھیل کی لہروں کی نرم ہنسی
نثار ہو جاتی تھی۔ سب کو
چھاوں دینے والا
وہ تناور درخت، سب کے خوابوں
کا رکھوالا۔۔۔کہاں ہے؟
کہاں ہے جس نے فن کے شاخساروں
کو تخلیق کی قبا بخشی۔۔۔؟
جس کے سخن کے درخشاں چراغ
نے اُجالے بخشے، جس نے
دوستی ،راستی اور دانشوری
کا فلک بوس رنگ
محل بنایا۔ گھر
گھر کے طاقوں پر
علم کی قندیل روشن کی۔۔۔
کہاں چھپ گیا وہ ۔۔۔ ؟ جسے
اب ہم نہ دیکھ سکتے ہیں
نہ چھو سکتے ہیں۔ یہ کیسا
سکوت طاری ہے۔۔۔ ؟ پھولوں
کی پلکیں نم ہیں۔۔۔ ہوا
سر جھکائے چل رہی ہے۔
فضائیں
دھواں دھواں ہیں جیسے
کوئی ہرا درخت جل گیا ہو۔
چاند کی بھیگی ہوئی آنکھوں
سے نقرئی آنسوں بہہ رہے
ہیں۔ لہروں کے ہونٹ خاموش
ہیں۔ وہ تناور درخت تھک
کر گر پڑا ہے ۔۔۔ لیکن ۔۔۔۔
اپنی چھاوں سبھوں کے صحن
میں چھوڑ گیا۔ سب کی راتوں
میں اس کا علم چاند کی طرح
روشن ہے۔ سب کی راہوں
میں اس کے نقش قدم
کے چراغ ضیا خیز ہیں۔
سب کے آسمانوں
پر اُس کے رنگ سخن کی شفق
روشن ہے۔ ایک ہجوم
اس کے تعاقب میں رواں ہے۔
وقت کے سمندر کی لہریں
اُس کے نقش پا کبھی مٹا
نہ سکے گی۔اس کی صداقت
کے وقار کی روشنی ہمیشہ
ہمیشہ روشن رہے گی۔
اُس کی
آواز کے پھول ہمیشہ تازہ
رہنگے ۔۔۔۔۱