fina-sherosokhan-animat.gif

Adab Nama

new-year-2017-wishing-for-web.jpg

 
 ’’شعر وسخن‘‘
  الحمد للہ2016  کا آخری شمارہ مکمل ہو چکا ہے۔ اس شمارے میں تین مختلف عنوانات پر اضافے کئے گئے ہیں۔ اس پیج کی بائیں جانب ایک عنوانات کی لسٹ ہے۔کسی بھی عنوان پر کلک کر کے اس صفحےکو پڑھا جا سکتا ہے۔ پھر بھی آپ کی سہولت کے لئے درج ذیل عنوانات پر بھی کلک کیا جا سکتا ہے۔
مضامیں: ڈاکٹر تقی عابدی۔ ڈاکٹرعبدالکریم۔نصر ملک۔ ڈاکٹر غلام شبیر رانا۔احتشام الدین۔علی احمد فاطمی۔روبینہ رفیق۔ شائستہ فاخری۔ غلام ابن سلطان۔ احسان عالم
افسانے: نورالحنین۔ شائستہ فاخری۔ شہناز خانم عابدی۔ غلام ابن سلطان۔ داؤد کاکڑ۔ گوہر تاج۔
شاعری: اسلم بدر۔ ذکیہ غزل۔ عزیز بلگامی۔تبسم انوار۔ردا فاطمہ۔ ڈاکٹر جمیل۔ عرفان ستار۔ عرفان مرتظی۔ حسرت ایم۔کے۔ احمد نثار۔ عبداللہ جاوید۔ احمد علی برقی۔ابن عظیم فاطمی۔ مہتاب قدر۔
خیر اندیش
سردار علی
مدیر شعر وسخن
 
  

aaj-ka-musalman.jpg
tired-not-exhausted.jpg

Sabras-December2015-Issue

Sabras November 2015

اعمال نامہ

 
 ۱۳ فروری ۲۰۱۲ کواُردو دنیا کے نامور شاعر شہر یارکا انتقال ہوگیا۔۔۔ ایک ہی دن کے وقفہ سے ۱۵ فروری ،۲۰۱۲ ایک اور مقتدر ہستی، ’’ ادارہ ادبیات اردو‘‘ حیدرآباد کے سیکریٹی، ادبی رسالہ ’’ سب رس‘‘ کے سابق مدیر، شاعر، محقق ، نقاد اور پروفیسرمغنی تبسم کا بھی انتقال ہو گیا۔ ادبی رسالہ ’’ شعر و حکمت‘‘ کے دونوں مدیر اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے، انا للہ و انا الیہ راجعون۔  ادارہ  شعر و سخن ان دونوں کے کی ایک ساتھ موت پر سوگوار ہے۔
 

mughnitabassum.jpg
shehryar.jpg

sub_titles_of_bar.jpg

sub_titles_of_bar.jpg

aligadh_university.jpg
canadian_urdu_writers.jpg
sbazm_tahfuz_urdu.jpg
writers_foeum_canada.jpg
iqbal_academy_canada.jpg

سر گوشیاں

انسان

مہذب درندہ

family_of_hear.jpg
jeddah_m_report.jpg
ghalib_academy.jpg
2urdu_writers_la.jpg

shame_afsana_17_june07.jpg
shame_afsana2_17_june07.jpg
shame_razaul_jabbar.jpg
shame_razaul_jabbar3.jpg
nasren_syed_writers_forum.jpg
report_akhtar_jamal_june_3.jpg
report_akhtar_jamal2_june_3.jpg
report_jashan.jpg
report_jashan2.jpg
mehfil_29_april.jpg
2mehfil_29_april.jpg
jeddah_april_07.jpg
jeddah2april_07.jpg

" بزمِ فانوس " کا سالانہ مشاعرہ

 

بزم فانوس کا سالانہ مشاعرہ بتاریخ ۲۱/ اپریل ٹورانٹو میں منعقد ہوا، جس میں شعر و ادب کے باذوق سامعین نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ مشاعرے کی صدارت جناب رسول احمد کلیمی نے کی جب کہ نظامت جناب ناظم الدین مقبول نے اپنے خاص انداز میں کی۔ مہمان خصوصی پاکستان کے قونصل جنرل تصدق حسین صاحب تھے ، اور مہمانِ اعزازی جناب دل محمد اور زین العابدین اوکاڈیا تھے۔کلام پاک کی تلاوت سے مشاعرے کا آغاز ہوا اور ایک خوبصورت نعت اعزاز علوی صاحب نے پڑھی۔

اس مشاعرے میں  اثر اکبر آبادی،خالد عزیز، ڈاکٹر رشید گل، نذیر صدر، بیگم زری ظفر، کرامت غوری، نزہت صدیقی، عابدہ کرامت ، خلیل یوسف صدیقی، شکیل خان، ہاشم نقوی، مصباح انصاری، فیصل عظیم، طارق حسین،سبطین کاظمی، فہمیدہ مقبول، یونس اعجاز، جمال زبیری، واصف حسین واصفؔ، روحیل خان، ناظم الدین مقبول، سید افتخار حیدر، سلمان اطہر، اور  رحمٰن خاور نے کلام سنایا۔

آٹوا سے خاص طور پر جناب ولی عالم شاہیں نے شرکت کی اور اپناکلام سنا کر داد حاصل کی۔  جناب حافظ اشتیاق طالب علالت کے سبب شریک مشاعرہ نہ ہو سکے، لیکن ان کا کلام  انجم قریشی سے سنایا۔ مشاعرے کے اختتام پر بزمِ فانوس کی جانب سے تحفے  دئیے گۓ۔ بزم فانوس کی جانب سے ایک عشایۂ بھی دیا گیا اور ایک خوبصورت مجلّہ بھی پیش کیا گیا۔ مشاعرہ رات دیر گۓ تک جاری رہا اور یہ ایک کامیاب محفل ثابت ہویٔ ، اس کے لے جناب منیف اشعرؔ صاحب قابل تحسین ہیں۔

 

نوٹ: ایم پی جیم کیری، اور واجد خان نے بھی بطور خاص شرکت کی۔

 

محفل کی چند تصاویر ہم بشکریہ اخبار "عوام" اور جناب بشیر  ناصر،   پیش کر رہےہیں۔

mushaira_bazme_fanoose2.jpg
javaid_danishpr.jpg
javaid_danishp.jpg

diwan_ghalib1.jpg
diwan_ghalib2.jpg
 

corner_sherosokhan.jpg

اردو زبان تہذیب و ثقافت کا عظیم خزانہ

مولانا آزاد یونیورسٹی میں " غالب شاعر زیست"

 

مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد میں مرزا غالب کے ۲۱۰ ویں یوم ولادت کے موقع پر پہلا ایک روزہ بین الاقوامی سمینار منعقد کیا گیا۔ اس کی صدارت پروفیسر اے۔ ایم پٹھان وائس چانسلر مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی نے کی۔ ڈاکٹر سی ناراین ریڈی سابق وائس چانسلر تلگویونیورسٹی نے کہا کہ ہمیں اپنی شناخت کی برقراری کے لئے اپنی زبان کو زندہ رکھنا ہوگا۔ اردو زبان تہذیب و ثقافت کا عظیم خزانہ ہے۔ مرزا غالب کے گزرنے کے اتنے برسوں باوجود وہ اپنی شاعری کے ذریعہ ہمیشہ زندہ ہیں۔ ڈاکٹر سی۔ نارائن ریڈی نے کہا کہ ہندوستانی زبانیں آج عجیب ماحول سے دوچار ہیں۔ ہندوستا نیون نے آزادی حاصل کرنے کے باوجود، تہذیب و تمدن، زبان اور ادب کے رمزے میں ابھی وہ آزادی نہیں ہیں، اور ہم انگریزی کے آنچل سے بندھے ہیں۔

         

پروفیسر اے ایم پٹھان وائس چانسلر مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی  نے اس موقع پر ڈاکٹر سید تقی عابدی ﴿ کینیڈا﴾ کی تصنیف کردہ کتاب " غالب و دیوان نعت و منقبت" کی رسم اجرا انجام دی اور اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ اردو یونیورسٹی میں لکچرس کے علاوہ آج پہلی مرتبہ سمینار منعقد کیا جا رہا ہے جو مرزا غالب کے ۲۱۰ ویں ولادت کے موقع پر انہیں خراج ہے۔ اس موقع پر انہوں نے مؤلف " غا لب و دیوان نعمت و منقبت" ڈاکٹر تقی عابدی سے اپیل کی کہ اگر ان کے پاس اضافی قلمی مخطوطات ہوں تو وہ اسے اردو یونیورسٹی کے میوزیم کو عطیہ دیں۔ ڈاکٹر سید تقی عابدی نے جوا ب میں اعلان کیا ان کے پاس اگر اضافی مخطوطات ہوں تو وہ اسے ضرور اردو یونیورسٹی کو بطور عطیہ دینگے۔ ڈاکٹر صاحب نے مزید کہا کہ ٹورانٹو، کینیڈا میں ان کی شخصی لائبریری میں تقریباً ۱۵ ہزار کتب اور دو ہزار سے زائد قلمی مخطوطا ت موجود ہیں اور ان کی وصیت کے مطابق ان کے انتقال کے بعد ۱۲ گھنٹوں کے اندر ساری کتابیں اور مخطو طا ت ٹورا نٹو لائبریری کو منتقل کردی جائیں گی۔ ڈاکٹر سید تقی عابدی نے ڈاکٹر سی نارائن ریڈی کی اردو سے وابستگی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اردو کسی مذہب کی زبان نہیں ہے بلکہ یہ بر صغیر پاک و ہند کی زبان ہے اسے مذہب کے خانوں میں تقسیم نہیں کیا جاسکتا۔

 

          ابتداء میں پروفیسر ایس اے وہاب قیصر، کنٹرولر امتحانات یونیورسٹی نے خیر مقدمی تقریر کی اور مہمان ڈاکٹر سی نارائن ریڈی کا تعارف کرایا ۔ تقریب میں ڈاکٹر قمر رئیس نائب صدر نشین دہلی اردو اکیڈیمی، جناب طالب خوند میری، ڈاکٹر ریحانہ سلطانہ، ڈاکٹر فاطمہ پروین، ڈاکٹر مسرت جہاں، جناب کمال کے علاوہ اساتذہ کی کثیر تعداد موجود تھی۔

 

"اردو کی نئی بستیاں" عنوان پر ڈاکٹر تقی عابدی کا توسیعی لیکچر

 

ڈاکٹر سید تقی عابدی نے مولانا آزاد اردو یونیورسٹی میں " اردو کی نئی بستیاں" کے عنوان پر ایک توسیعی لکچر بھی دیا۔ سماجی تبدیلیوں اور عصری تقاضوں کے مطابق زبان و ادب کو بھی اپنے اندر تبدیلی پیدا کرنی چاہیے ۔ اردو زبان بے حد نرم لچک دار اور نمی کی حامل ہے لیکن اردو والوں میں یہ بات نہیں پائی جاتی، اور جب تک مٹی نم نہیں ہوگی وہ زرخیز

 

corner_sherosokhan.jpg

حلقہءدانش جدہ : ماہانہ ادبى نشست كى روداد
ڈاکٹرتوقیرحیدر))

اس بار حلقہءدانش جدہ کی ماہانہ بساط شعروسخن کھلےآسمان کےنیچےسبزہ زار میں سجائی گئی۔ قارئین کرام، آپ یقینا اتفاق کریں گے کہ موسم کی خوبصورتی وخوشگواری جولانیء طبع کا سبب توبنتی ہے۔ اس پر ُطرہ اگر خوبصورت رنگ تغزل کا ہوتوآپ بخوبی اندازہ لگا سکتےہیں کہ ذہن ودل کی کیفیت کیا ہو گی ۔ایسی ہی ایک سہانی شام کو اس نشاط تقریب کےلیے چنا گیا جس میں جدہ کےمعروف شعراء اورنثرنگاروںنےاپنےدلآویزکلام سےخمارشام کوخوب دوآتشہ کیا۔

تقریب کے مہمان اعزاز معروف درویش صفت شاعر، دوخوبصورت سندھی اور اردو شعری مجموعوں کےخالق ، جناب شبیر شاہ ھاتف تھے۔ عشق حقیقی میںڈوبا ہوا آپکا کلام سادگی، فصاحت اور کیفیت و جذب کا مرقع تھا۔

مہمان خصوصی کےلیےجس بزرگ شخصیت نےمسند کو رونق بخشی وہ تھے جناب طارق ظہیرفاروقی جو پاکستان سےعمرہ کی سعادت کے لیے تشریف لائے ہوئے تھے۔ علمی اورادبى شخصیت ہیں، قرآن پاک پر ایک عمیق مطالعہ کا شرف حاصل ہے، شعری ذوق سے مالا مال ہیں, طویل مطالعاتی سفر میں متعدد شعراء اور ادباء کی ذاتی زندگی پر مشتمل یادوں کا دفینہ اپنے سینے میں رکھتےہیں- آپ ایسے بزرگ کی موجودگی تمام حاضرین کے لیے باعث  فخر و تقویت رہی.

قونصل جنرل جناب محمد آفتاب کھوکھر، جناب مطاہررضوی (صدرپاکستان ایگزیکٹوگروپ)، شاہین رضاجعفری، ندیم فاروقی، قاسم نقوی، محمد اسد ، موسى رضا، تمکین حیدر کے علاوہ شہر کی دیگرممتاز ادبی اورسماجی شخصیتوں نے اس محفل کی رونق کودوبالا کیا اورشعراء وادباء کوخوب دادوتحسین سےنوازا۔

تقریب کا باقائدہ آغاز تلاوت کلام پاک سے کیا گیا جس کا شرف ڈاکٹرتوقیرحیدر نے حاصل کیا، نظامت کے فرئض بھی انہی کے سپرد تھے۔ جبکہ خوش الہان شاعرجناب انوار حسین نے بارگاہ رسالت میں نعت رسولِ مقبول پیش کرنے کی سعادت حاصل کی۔ جن معروف شعراءکرام نےاس خوب صورت شام کواپنےدلاویز کلام سے کیف آگیں بنایا انکے نام نامی بالترتيب کچھ یوں ہیں،

جناب شبیرھاتف، جناب محمد مجاہدسید ، جناب محمد مختارعلی ، جناب آفتاب ترابی، جناب زوارقمرعابدی، جناب فیصل طفیل، محترمہ حناء سمیع صاحبہ، جناب ڈاکٹر محمود اقبال حیدر، جناب محمد انوارحسین اور راقم الحروف ڈاکٹرتوقیرحیدر۔ جبکہ نثری حوالےسےاپنی خوبصورت تخلیقات پیش کرنے والوں میں معروف صاحب اسلوب مزاح نگار نادرخان سرگروہ نے " تربوز " کے عنوان سےایک نہائت شگفتہ اور لطیف نثرپاره پڑھا جو سامعین نے بہت سراھا۔ حلقہء دانش کے اساسی رکن اورمعروف علمی وادبی شخصیت جناب محمداشفاق بدایونی نے ایک منفرد افسانچہ (بلاعنوان) پیش كيا جسےدلچسپی اورتجسس سے سنا گیا، جبکہ جناب عصیم حنیف نے اپنی زیرتکمیل اردو لغت کا تعارف پیش کیا۔

قارئین کرام، اس میں شک نہیں کہ غزل مشاعروں كى جان ہوتی ہے ،توآئیے اس رنگ تغزل کا نمونہ ملاحظہ کیجیے جسکا انتظار ہر ذوق شعر رکھنے والے کو ہوتا ہے۔

۱ٴٴٴ۔ ڈاکٹرتوقیرحیدر (راقم)نے ایک لطیف قطعہ اورغزل کےچند شعر پیش کیے، ملاحظہ ہوں،

غزل کےدوآشعار:

اب توتضحیک زمانہ سےجھکی جاتی ہیں

وہ جن آنکھوں نے سمر قند و بخارا دیکھے

جو فلک نے کبھی دیکھا نہ زمیں نے دیکھا

اب میری آنکھ وہ خوناب نظارہ دیکھے

جناب محمد انوار حسین

روز اک خواب مجھے جنگ میں لے جاتا ہے

قتل ہو جاتا ہوں ملتا نہیں لشکر اپنا
دشمن جاں میں تجهے کیسی دعا دوں اب کے
سونپ بیٹها ہوں ترے ہاتھ میں خنجر اپنا


جناب ڈاکٹر محمود اقبال حیدر
:

خوب رو بےمثال کرآنکھیں

آینہء جمال کرآنکھیں

لمحہء صبر کو بسا ان میں

قریہء ماہ وسال کر آنکھیں

محترمہ حنا سمیع:

فیصلہ تم نے ہی کرنا ہے مگر جانے کیوں

کوئی لمحہ تمہیں منزل سے ہٹا دیتا ہے

جناب فیصل طفیل:

نقش قدم جو صحراوں سے ملتے ہیں

قیس کے ہیں یا مرے پاوں سے ملتے ہیں

کتنی ندیاں کتنی صدیاں راہ میں ہیں

شہر کے رستے کب گاوں سے ملتے ہیں

جناب زوار قمر عابدی:

رات بھر نگاہوں میں خواب بو نہیں سکتے

کس قدر اذیت ہے لوگ سو نہیں سکتے

اور اس سے بڑھ کر بھی بےبسی کوئی ہو گی

آنکھ میں سمندر ہے اور رو نہیں سکتے

جناب آفتاب ترابی:

فن کی میزان پہ معیار سے کم نکلے ہو

پھول کا ذکر کہاں خار سے کم نکلے ہو

دشمنو تم کو بھلا مجھ سے شکائیت کیسی

تم عداوت میں میرے یار سے کم نکلے ہو

جناب محمد مختار علی؛

علم چلتا ہے نہ دنیا کی رضا چلتی ہے

یہ مقدر ہے یہاں ماں کی دعا چلتی ہے

ٹھیک سے دیکھ بھی پاتے نہیں هم اس کے نقوش

کس قدر تیز جوانی کی بلا چلتی ہے

جناب مجاہد سید:

بجھے چراغ کی صورت نڈھال جسم میں تھا

اے مری زیست میرا ہر کمال جسم میں تھا

جناب شبیر شاہ ھاتف:

ایک دو پل کی بات ہے یارو

کوئی لمبی نہیں سنانی ہے

عشق مجبور، حسن بے پرواہ

اپنی اتنی سی ھی کہانی ہے

ٓ واعظ تری زبان کو دھو لوں گلاب سے

تو نے مجھے کہا ہے در مصطفی کی خاک

آخر میں مہمان خصوصی جناب طارق ظہیر فاروقی کو اظہارخیال کی دعوت دی گئی، جس میں انہوں نے اس خوبصورت تقریب سجانے پر حلقہء دانش کو مبارکباد دی  اور فرمایا کہ ایک زمانے میں وہ حلقہء ارباب ذوق پاکستان کی محافل میں باقائدگی سے شرکت کرتے رہے ہیں اور مزیدکہا کہ ‘‘میں یہ سمجھتا ہوں کہ آج حلقہءدانش کی محفل شعروسخن حلقہءارباب ذوق کی محافل کےبلکل برابر ہے‘‘۔

 

homepage.jpg