اُردو
افسانہ۔۔۔ ایک صدی
سنٹرل
یونیورسیٹی آف حیدرآباد
میں ایک سمینار منعقد
ہوا جس کا افتتاحی اجلاس
معروف اردوداں ادیب پروفیسر
گوپی چند نارنگ کی صدارت
میں ہوا۔ پروفیسر بی۔پی۔سنجئے پرو وائس چانسلر
نے اپنے استقبالیہ خطبے
میں شعبہ اُردو کی کارکردگی
کی ستائش کی۔ جناب رحیم
الدین انصاری صدر آندھرا
پردیش اُردو اکیڈمی مہمان
اعزازی نے اپنی اکیڈمی
کے بارے میں تفاصیل بتاتے
ہوئے پیشکش کی کہ اس سمینار
میں پڑھے گئے مقالات کو
اکیڈمی کی جانب
سےطبع کرائنگے۔
پروفیسر
گوپی چند نارنگ نے اپنے
صدارتی خطبے میں کہا کہ
آج کا سب سے بڑا مسئلہ تہذیبی
شناخت ہے۔ تیس برس پہلے
جو زندگی تھی وہ آج بدل
گئ ہے۔ معلوماتی ذرائع
اور خبر رسانی کے وسائل
بدل چکے ہیں اس لئے اب ادب
میں بھی تبدیلی ضروری
ہوگئ ہے۔ آپ نے اُردو
افسانے کے آغاز سےجائزہ
لیا اور کہا کہ کہانی کو
نظر انداز نہیں کیا جا
سکتا۔ حکایتیں اور الیف
لیلوی داستانیں ہماری
عربی روایات ہیں۔ اسی
طرح مہابھارت سنسکرت
کی روایت
ہے۔ کہانی کا مقصد صرف
اپنے زمانے کے مسائل کا
ظہار کرنا ہی نہیں بلکہ
انسان کے دکھ درد
کو پہچاننا ہے۔ آپ نے
کہا کہ تنقید کا کام تفہیم
و تحسین ہے۔ تخلیق پر تنقید
کی بالادستی کبھی قائم
نہیں ہو سکتی۔ وہ ادبی
دور ختم ہو گیا ہے جب فنکار
کو ایک فارمولا دیا جاتا
تھا اور وہ اسی کے اردگرد
کام انجام دے سکتا تھا۔
ہم افسانے کی تنقید میں
چند مخصوص ناموں کو دہراتے
ہیں۔آپ نے مشورہ دیا کہ
ایک ایسی انتھالوجی تیار
کی جائے جس میں تمام چھوٹے
بڑے فنکاروں کا احاطہ
ہو۔
پروفیسر
بیگ احساس نے مہمانوں
کا خیر مقدم کیا اور بتایا
کہ شعبہ اُردو سنٹرل یونیورسٹی
آف حیدرآباد کو کئ لحاظ
سے اوّلیت حاصل رہی ہے۔
اُنہوں نے گوپی چند نارنگ کو فکشن کا سنجیدہ نقاد کہا ۔ پروفیسر
بیگ کے ایک شاگرد، عبدالحق)
ورلڈ وائڈ فوٹوگرافر
( نے گوپی چند نارنگ
کو اپنا بنایا ہوا ایک
پورٹریٹ پیش کیا ۔
پروفسر
عطیق اللہ سابق صدرشعبئہ
اُردو، دہلی یونیورسٹی
نے اپنا کلیدی
خطبہ پیش کیا۔ اس سمینار
میں علی احمد فاطمی،پروفیسر
طارق چھتاری، پروفیسر
م۔ن۔ سعید،سلام بن رزاق،
ڈاکٹر سیّد اضغر، پروفیسر
شافع قدوائ وغیرہ نے شرکت
کی۔ افتتاحی تقریب کے
بعد محترمہ جیلانی بانو
کی صدارت میں دوسر اجلاس
افسانہ منعقد ہوا جس میں
حمید سہروردی، طارق چھتاری،
بیگ احساس،نورالحسنین،سلام
بن رزاق اور قمر جمالی
نے حصہ لیا۔