ایک اقتباس پیش کرتی
ہوں۔
چراغ بجھتے چلے جا رہے ہیں سلسلہ
وار
میں
خود کو دیکھ رہا ہوں فسانہ
ہوتے ہوئے
اظہار صاحب پاکستانی کیمونٹی
کے لئے ایک گھنے سایہ دار
درخت تھے وہ اپنے ایک شعر
پر عمل کرتے ہوئے زندگی گزار
جن کا پیشہ شجر تراشی
ہے
پیڑ ان کو بھی
سایہ دیتے
ہیں
وہ ان پاکستانیوں
میں سے تھے جن کے جذبۂ تعمیر
نے صحرا کو گلستان بنایا
۔اللہ ان
کو بہتریں جواررحمت میں
جگہ دے.
منظور ک حسرت نے
اظہار حیدر کے لئے قطعات
پیش کئے۔
تشنہ لبوں
کے جام محبت سے بھر گئے
صحرا
کو اپنی
چاہ سے
گلزار کر
گئے
صد آفریں کہ اہل وطن کے مفاد میں
جو کچھ تھا ان کے بس مین
وہ اظہار کرگئے
شوکت
علی ناز نے دوہا قطر سے
سید اظہار حیدر کے لئے
نظم بھیجی دواشعار پیش
کئے جارہے
ہیں
وہ جس کے دم
سے تھا محفل میں اعتبار
سخن
سخن
گروں کو
وہی سوگوار کرکے گیا
عجیب شخص
تھا اپنے
ہنر میں
یکتا تھا
کہ خونِ دل سے
چمن میں بہار کرکے گیا
شریف آفریدی
جن کا تعلق پاکستان سوشل
سنٹر شارجہ سے ہے اانھوں
نے کہا اظہار
حیدر نے بے شمار فلاحی
کام کئے یہی فلاحی کام
ان کی آخرت میں فلاح کا
باعث بنے
گے انھوں نے صبیحہ صبا
اور صغیر احمد جعفری کی
ادبی خدمات کو سراہا۔
سید اظہار حیدر کے بھانجے عباس
زیدی اور بھانجی نگہت
ماجد حسین نے اپنے مقالے
پڑھتے ہوئے کہا ہمیں فخر محسوس ہو
رہا ہے کہ ہمارے خاندان
کے ایک فرد نے اتنی عزت
اوروقار سے زندگی گزاری اور اتنے
اچھے اچھے کام کئے اپنا
اورخاندان کا نام روشن
کیا صبیحہ صبا اور صغیر جعفری نے
یہ تقریب منعقد کر کے ہم
سب کے دل جیت لئے۔ امریکہ
سے آئے ہوئے ڈاکٹر امان اللہ خان
جو پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر
ہیں کینسر کے مرض میں ریسرچ
اور علاج پر گران قدر خدمات انجام
دے چکے ہیں سابق صدر جارج
بش کے مشیر رہ چکے ہیں۔پاکستانی
قوم اور پاکستان
کے لئے بڑا درد رکھتے ہیں
جو کہ ان کی پنجابی شاعری
سے عیاں ہے انھوں نے اظہار صاحب
سے زندگی میں نہ ملنے پر
افسوس کا اظہار کیا۔ انھوں
نے کہا کہ لوگ جس چاہت سے ان کا
ذکر کر رہے ہیں یقینناً
وہ اچھے انسان ہونگے۔اچھے
انسانوں کا جانا خلا پیدا کرتا
ہے ڈاکٹر صغرا صدف کالم
نگار محقق کمپئر پی ٹی
وی پنجاب ٹیکٹ بک بورڈ کی ممبر وجدان
کی ایڈیٹرپاکستان سے
تشریف لائیں تھیں مشاعرے
کی صدارت کر رہی تھیں انھوں نے اظہار
حیدر کے بارے میں گفتگو
کرتے ہوئے کہاکہ جب کوئی
فرد نیک مقصد کو آگے لے کر بڑھتا
ہے تو االلہ کی تائید اسے
حاصل ہو جاتی ہے اس کی مثال
سید اظہار حیدر ہیں دوسرے دور
میں شاعری پیش کی گئی حالانکہ
رات کافی بھیگ چکی تھی
چند گھنٹے بعد لوگوں کو اپنی ڈیوٹی
کے لئے جاناتھا مگر بڑی
تعداد میں لوگ آخر تک موجود
رہے سب سے
پہلے صبیحہ صبا نے کنول
ملک کو دعوتِ سخن دی کنول
ملک نے پہلی بار کسی مشاعرے میں شرکت کی
ان کی ایک کتاب شائع ہو
چکی ہے اوردوسری زیر ترتیب
ہے ان کے دو اشعار
اب ہمارے درمیاں
یہ فاصلے ہیں اور بس
ایک ہم ہیں
خاک ہے یہ راستے ہیں اور بس
کانچ کی مانند بکھرے
خواب ہیں
میرے کنول
ہاتھ میں ٹوٹے ہوئے
سے آئینے
ہیں اور بس
نامورشاعر حریم حیدر
دور سے آئے
تھے اور جلدی جانا چاہتے
تھے اسلئے انہیں بلایا
گیا۔
مری غزل
میں ترا
حسن کیا سمائے
گا
ہر ایک لفظ معنی
سے منہ
چھپائے
گا
نوجوان شاعر سلیمان
جازب اورطلعت
زیدی نے خوبصور ت کلام
پیش کیا ، ارشد انجم ،حافط زاہدعلی،منظور
ک حسرت ،ڈاکٹرامان اللہ
خان صغراصدف،امجداقبال
امجد نے نے اردو کے ساتھ پنجابی کلام
بھی سنایا۔
سحرتاب رومانی
مجھ کو صرف دو ساعت
اس نے زندگی
بخشی
اک دیا جلانے کی،
اک دیا
بجھانے کی
منظور ک حسرت
کھلا در کو سدا رکھنا میں اک دن لوٹ آؤں
گا
مجھے ہے یادبچھڑا
تھا وہ یہ
کہہ کے یہی کہہ کے
ہمیشہ خشک نظر آئیں ہیں وہ آنکھیں
تو
وہ میری
آنکھ کے آنسو کہاں چھپاتی ہے
سید صغیر جعفری
بڑھ کے صحراؤں کو
گلزار بنانے والے
الوداع کہتے
ہیں ہم پیار سے
جانے والے
صبیحہ صبا
تمہیں کیا
فکر ماں
کی زندگی میں
کہ جب بے کل تمہارے
جاگتے ہیں
آخر میں صدرمحفل
ڈاکٹر صغرا
صدف سے بہت سا کلام سنا
گیا،صبیحہ صبا نے تمام
مہمانوں کا تہہ دل سے شکریہ
ادا کیاجن
کی موجودگی میں سید اظہار
حیدر کی یادوں کو تازہ
کیا گیا ان کے لئے دعائے مغفرت کی گئی۔
تری لحد پہ کھلیں
جاوداں گلاب
کے پھول۔