fina-sherosokhan-animat.gif

Dr. Qamar Rais..... by Tahir Naqvi

ڈاکٹر قمر رئیس مرحوم

----)()(----

تحریر: طاہر نقوی

ڈاکٹر قمر ریٔس کی موت سے اُردو تنقید کا ایک اہم باب ختم ہو گیا ۔ وہ روایٔتی قسم کے نقاد نہیں تھے۔ وہ تخلیقی تنقید کے قائل تھے۔ادب پارے کی روح میں اتر کر اصل جوہر تلاش کر لیتے تھے۔ ترقی پسند تحریک سے وابستہ  رہے اور ترقی پسند مصنّفین کی صف اوّل کے ادیبوں میں شمار ہوتے تھے۔ تاہم ان کی تحریروں میں اُن کا ترقی پسند نظریہ کبھی آڑ ے نہیں  آتا تھا۔۔۔۔۔ بلکہ تخلیقی پن نمایاں رہتا تھا۔ یہ زاویہ اُنہیں دیگر ترقی پسند  ادیبوں سے علیحدہ کرتا ہے۔ اُنہوں نے اپنی تخلیق کو تحریک سےکبھی متاثر نہیں ہونے دیا۔وہ وسیع   المطا لعہ شخص  تھے، اس لیٔے ان کی تحریروں میں اعتماد تھا۔ وہ برسوں اپنے ملک سے  باہر غیر ملکی یونیورسٹیوں میں پڑھاتے رہے۔ دہلی اکیڈمی کے وا یٔس چیر من بھی رہے۔ اُن کا ادبی رسالہ "نیا سفر" نہایت معیاری پرچہ تھا۔ وہ کاسۂ گدایٔ نہیں تھا جس میں کھرا کھوٹا  ہر سکہّ ڈال دیا جاتا ہے۔ وہ چھاپنے سے پہلے ہر فن پارے کو  اچھی طرح جانچ کرتے تھے۔ کسی کی مروّت نہیں کرتے تھے۔ اُنہوں نے اپنے پرچے کو تعلقات کی بنیاد نہیں بنایا۔ جہاں سے اچھی اور معیاری تحریر ملتی تھی، اُسے شا یٔع کرتے تھے۔ تنقید کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر صاحب کے یہاں افسانوں کی اچھی پرکھ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ "نیا سفر" میں کبھی کمزور افسانہ  نہیں چھپا۔ اُن کی خاص بات یہ تھی کہ جب کبھی نئے افسانہ نگار کے یہاں اُنہیں تخلیقی جوہر نظر آتا تھا تو اُس کی حوصلہ افزائ کرتے تھے۔ میرے ایک افسانے "افسانہ نگار کی اپنے کردار سے آخری ملاقات" کو شائع کرنے کے ساتھ ساتھ اُس کا ذکر خصوصی طور پر اپنے ادارئیے میں بھی کیا کہ اسے منٹو کے کسی بھی اچھے افسانے کے مقابلے میں اعتماد سے رکھا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا فن سچّا تھا۔ ایسے نقاد بار بار پیدا نہیں ہوتے۔

-----{}{}-----           

homepage.jpg