غزل
شاہین
چہروں میں نظر آئیں آنکھوں
میں اتر جائیں
ہم تجھ سے جدا ہو کر ہر
سمت بکھر جائیں
دن
بھر کی مشقت سے تھک ہار
کے گھر جائیں
اور اپنی ہی دستک کی
آواز سے
ڈر جائیں
اچھا ہے کہ ہم اپنے
ہونے سے مکر جائیں
یا اپنی خبر دے کر چپکے
سے گزر جائیں
جس شہر بھی ہم جیسے برباد نظر جائیں
اوراق مصور کے تصویر
سے بھر جائیں
اڑتے ہوئے پتوں نے موسم
کی خبر دی ہے
ہم
پھر سے سنورنے کو اک بار
بکھر جائیں
پھولوں
کی قبا پہنیں خوابوں کی
دھنک اوڑھیں
ہم قریہء جاناں میں کیوں خاک بسر جائیں