fina-sherosokhan-animat.gif

Jaleel Nizami in Jeddah

sub_titles_of_bar.jpg

شاعر ِخلیج جلیل نظامی

مہتاب قدر۔جدہ

(جدہ میں ایک شام جلیل نظامی کے نام پہلی بار ۲۰۰۸ میں اردو گلبن کے زیر اہتمام منعقد ہوئی اور اب دوسری بار ۲۴ اپریل ۲۰۱۳ کی شام بزم شگوفہ کی جانب سے برپا کی جارہی ہے اس موقع پر پیش کردہ یہ تعارفی مضمون ملاحظہ فرمائیے )

ماہ ِنو دیکھنے تم چھت پہ نہ جانا ہرگز    شہر میں عید کی تاریخ بدل جائے گی

یہ مشہور ِزمانہ شعر آج کے مہمان شاعر جلیل نظامی کا ہے ، جس کی سعودی عرب میں یہ تیسری حاضری ہے ،عرصہ پینتیس برس سے دوحہ قطر میں چمن ِاردو کی آبیاری میں یوں دیوانہ وار لگا ہوا ہے جیسے یہ اس کے اپنے مکان کاپا یئں باغ ہو۔دوحہ قطر میں غالب و میر کی جانشینی کا حق ادا کرتے کرتے اس نے دنیا بھر کی سیر بھی کی، بے شمار مشاعرے پڑھے جس میں سب سے اہم مشاعرہ میرے نزدیک لال قلعہ کا مشاعرہ ہے چونکہ لال قلعہ میں مشاعرہ پڑھنا اپنے بدن پر بم باندھ کر خودکُش حملہ کرنے سے کم حوصلے کی بات نہیں اورغالب کی دلّی میں جی سی ایم کا مشاعرہ بھی پڑھا جسے کہتے ہیں بڑے جان جوکھوں کا کام ہے۔اس طرح جلیل نظامی نے اپنے عہد کے قدآور شعرا کی نمائیندگی کرتے ہوے کہا ،

ہمارے حاسدوں میں غالب و میر و ظفر ہوتے  اگر ہم اتفاقاََ چند صدیاں پیشتر ہوتے

کوئی چیز اتفاقاََ ہوتی نہیں ہے اس لئے اس شعر کو اپنے عہد کے شعرا کی قدوقامت کے اظہار کا ایک علامتی ذریعہ سمجھا جائے۔

خاندانی تناظر میں اگر اس البیلے شاعر کا موازنہ کرنا چاہیں تو پتہ چلے گا کہ جلیل نظامی کسی نسبی شاعر کا نام نہیں ہے ، بلکہ زمین کی چھاتی میں معیشت کے تخم بوکر معاشرہ کو دال روٹی کے اسباب مہیا کرنے والے زارع آباو اجداد نے جہاں اس کلاسیکی شاعر کو جنگاوں تعلقہ کے ضلع ورنگل میں جنم دیا وہیں درس و تدریس کے عظیم المرتبت عہدوں پر فائز ننھیال کی جانب سے اس کی ذہن سازی بھی ہوئی۔ جامعہ نظامیہ جیسی جنوبی ہند کی عظیم درسگاہ کے نظام ِِِ ِدرسی نے محمد جلیل کو جلیل نؔظامی بنایا تو شفیق اساتذہ نے فکری اور دینی تربیت میں پختگی کے سامان مہیا کئے۔مدرسے سے علم ِ دین کی سند لینے کے بعد جلیل نظامی نے کالج کا رخ کیا اور دنیاوی علوم سے بھی اپنے معیار کو منواکرعثمانیہ یونیورسٹی سےڈگری حاصل کی ۔اپنی روایات اور زمین سے محبت رکھنے کے باوجو دیہ متوالا ۱۹۷۸ میں وطن سے دور خلیجی ملک بحرین اور پھرقطر کی جانب معاشی ہجرت کر گیا ۔قطر میں ہونے والے تمام چھوٹے بڑے مشاعروں میں ہمیشہ اپنا دست ِ تعاون دراز رکھتے ہوئے ۱۹۸۷ میں انڈو قطر اردو مرکز کے بینر پرجناب سلیمان دہلوی کی قیادت میں پہلا عالمی مشاعرہ پڑھا اور شعرا ئے قطر کے درمیان حیدرآباد کی بھرپور وکامیاب نمائندگی کی۔

اس کے بعد دبئی میں جشن آزاد میں شرکت، انجمن ِ شعرائے اردو ہند کا قیام،قطر میں پہلے عالمی مزاحیہ مشاعرے کا انعقاد جس میں صف اول کے طنزو مزاح نگار شعرا نے شرکت کی،جشن سلیم جعفری اور جشن محشر بدایونی میں اپنی فکری رفعتوں کا لوہامنوالینا،،قطر میں مرحوم مصیب الرحمن کے شانہ بہ شانہ چلتے ہوئے مجلس فروغ اردو ادب کی بنیاد،اور پھر آخر میں انڈیا اردو سوسائیٹی کی داغ بیل اور تاحال صدارت کے منصب پر فائز ہونا ،جس کے زیر اہتمام ۲۰ جون ۲۰۱۳ کو قطر میں جشنِ وسیم بریلوی کا بیڑا اُٹھا یا گیا ہے ، یہ وہ اہم سنگ ِ میل ہیں جہاں سے جلیل نظامی کی منزل کہکشاں کی صورت جھلمل جھلمل کرتی آسمان ِادب پر اس کا نام لکھوا چکی ہے۔ کسب معاش میں بھی جلیل نظامی نے اردو کا دامن نہیں چھوڑا اسلئے قطر کی وزارت ِ ثقافت کے اردو شعبہ کا ذمہ داربھی ہے۔

وطن سے سفر کے ذریعے تعلق رکھنے والا جب بھی اپنے وطن حیدرآبادجاتا ہے تو اس کا اپنا شعر اسے پھر پردیس لوٹا دیتا ہے کہ

کون کہلائے گا پھر قیس کا سجادہ نشیں  جب جلیل آپ بھی کرنے لگے صحرا سے گریز

بار بار خلیج کی طرف لوٹ جانے والے شاعر کو ۱۹۹۷ میں انجمن محبان اردو دکن کی تقریب میں ڈاکٹر عقیل ہاشمی کے ہاتھوں سٹی کالج طلبائے قدیم نے شاعر ِخلیج کے خطاب سے نوازا۔برصغیر کے مستند و مشہور اساتذہ حضرت والی آسی اور جناب مجروح سلطان پوری سے شرف ِ تلمذ رکھنے والا جلیل نظامی اپنے اطراف ہونے والے واقعات کو جب نظم کرنا چاہتا ہے تو کرکٹ کے میدان کو بھی نہیں چھوڑتا چنانچہ ۲۰۱۱ کے عالمی کرکٹ کے موقع پر کہی گئی کرکٹ کی رواں کامنٹری مثنوی کی شکل میں ایسے ترتیب دی جیسے گیسوئے یار کی مشاطی کر رہا ہو۔بے شمار اصناف سخن پر دسترس رکھنے والا جب شیخ زاید کی برسی پر مرثیہ ،نور العین ،لکھتا ہے تو دبیر و انیس کی یاد تازہ کر دیتا ہے۔ &nb sp; مقام ِحیرت ہے کہ ایسے قادر الکلام سخنور کا پہلا مجموعہ ’’ مور کے بازو کُھلے‘‘ اسی سال منطر ِعام پر آنے کی توقع کی جارہی ہے۔

حضرات ! میں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ جلیل نظامی شعرپڑہتے ہیں تو عموماََ تمہید کا سہارا نہیں لیتے بلکہ اپنے سامعین کوباذوق اور ذی علم جان کر سیدھے سیدھے شعر سناتے ہیں، انکا عقیدہ ہے کے

تہہ میں ہم بحر کی رکھتے ہیں چمکتےموتی  یہ نمائش لب ِدریا نہیں ہونے دیتے

اس لئے کہ اچھا شعر سامع کے دل میں غواصی کرتاہوا داد نکال لاتا ہےاسےمانگنے کی ضرورت نہیں پڑتی ، بھرپور تغزل کے ساتھ غم جاناں اور غم دوراں سے معمور کلاسیکی شاعری جلیل نظامی کا خاصہ ہے، جہاں تحت اللفظ میں شاعری پیش کرنے میں انہیں ملکہ حاصل ہے وہیں روایتی مشاعروں کےخوبصورت ترنم میں بھی انکا کلام لطف دیتا ہے۔آخر میں انکے اس شعر پر اپنی بات ختم کرتا ہوں۔

شہر میں صورت ِ دیوار ِ تماشا ہوں جلیلؔ اشتہاروں کی طرح لوگ ہیں چسپاں مجھ سے

مہتاب قدر

 

 

homepage.jpg