fina-sherosokhan-animat.gif

Aek Sham Yasin baig aur Asma Warsi key nam

فیملی آف دی ہارٹ کی ایک شام

ممتاز مزاح نگار مرزا یاسین بیگ اور معروف شاعرہ اسما وارثی کے نام

ٹورنٹو (نمائندہ خصوصی) فیملی آف دی ہارٹ کی جانب سے معروف صحافی و شاعرہ اسماء وارثی اور ممتاز مزاح و کالم نگار اور جنگ کینیڈا کے ایڈیٹر مرزا یاسین بیگ کے اعزاز میں گذشتہ ہفتے ٹورنٹو کے ریکس ڈیل کمیونٹی حب میں ایک شام منائی گئی جو تبصرہ نگاروں کی دل افروز تحریروں ، سامعین کی گہری دلچسپی اور ممتاز ادیب و دانشور ڈاکٹر خالد سہیل کی برجستہ کمپئرنگ کے باعث ایک یادگار تقریب بن گئی ۔ یہ فیملی آف دی ہارٹ کے روح رواں پرویز صلاح الدین کی جانب سے منعقدہ سالِ رواں کی دوسری تقریب تھی ۔
پروگرام کے پہلے حصے میں اسماء وارثی کے شعری مجموعے ’فرشتے پوچھتے ہیں‘ پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے ڈاکٹر خالد سہیل نے اپنا خوبصورت مقالہ پڑھا ۔ ان کے مطابق اسماء وارثی کے دو محبوب رہے ہیں ، پہلا اردو ادب اور دوسرا مذہب ۔ وہ شادی سے پہلے شاعری سے عشق کرتی تھیں بعدازاں شوہر کی اطاعت اور بچوں کی پرورش کی ذمے داری احسن طریقے سے اداکرنے کیلئے انھوں نے شاعری سے کنارہ کشی اختیار کرلی اور اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا دھارا ایک ماہانہ انگریزی مذہبی رسالہ نکالنے کی جانب موڑ دیا۔ خالد سہیل نے اپنے مخصوص ہلکے پھلکے انداز میں کہا کہ کئی دھائیوں کے بعد جب ان کے شوہر کا انتقال ہوگیا اور بچے بھی جوان ہوگئے تب اسماء کو اندازہ ہوا کہ وہ کئی مردوں کی طرح دو عدد محبوب سے بیک وقت محبت کرسکتی ہیں چنانچہ انھوں نے ادب سے دوبارہ راہ و رسم بڑھائی ۔ اب وہ ادب اور مذہب دونوں کی محبوبہ ہیں اور خوش ہیں ۔ ان کے مطابق اسماء کے شعری مجموعے میں شامل نظموں اور غزلوں میں دونوں محبوب سے اظہار محبت بخوبی جھلکتا ہے ۔ پہلے محبوب سے عشوہ ہے، غمزہ ہے، ادا ہے ، روٹھنا منانا ہے اور غمِ جاناں ہے وہیں دوسرے محبوب سے غمِ دوراں،غمِ ملٌت، غمِ جہاں اور احوالِ مسلم کے تذکرے ہیں ۔ یہی ان کے مجموعے ’فرشتے پوچھتے ہیں‘ کی انفرادیت ہے ۔ خالد سہیل کا کہنا تھا کہ اسماء وارثی ایک نیک ، پارسا شاعرہ ہیں جن سے نظریاتی اختلافات کے باوجود وہ ان کی شاعرانہ کاوش اور شخصیت کی متانت اور تحمل کی خوبی سے متاثر ہیں ۔
اسماء وارثی کی کتاب اور شخصیت پر روشنی ڈالنے کیلئے دوسرے مقرر ٹورنٹو کے ممتاز شاعر اور نقاد سید منیف اشعر تھے جنہوں نے نہایت متوازن مگر طویل مقالہ پڑھا جس کی وجہ سے حاضرین نے دل کھول کر داد دی اور منہ کھول کر بڑی بڑی جمائیاں بھی لیں ۔ منیف اشعر نے مجموعے کو چھوٹی سی کتاب کہا پھر دعوٰی کیا کہ وہ یہ مجموعہ تین روز سے جم کر دیکھتے رہے ہیں ۔ ان کے مقالے سے ان کا دعوٰی سو فیصد درست محسوس ہوا ۔ ان کا کہنا تھا کہ شاعرہ کا دامن علم ، مشاہدے اور تخلیقی رنگینی سے مالامال ہے ۔ اشعار اثرآفریں اور غمِ جاناں سے لے کر غمِ دوراں تک پھیلے ہوئے ہیں ۔ اشعار کو پڑھ کر ان کی زندگی کا کرب اور ان کے دل میں موجود ملٌت و قوم کیلئے بے پایاں ہمدردی خودبخود نمایاں ہوتی چلی جاتی ہے ۔ انھوں نے کتاب کو نظرِ بد سے بچانے کیلئے بطور تل ایک شعری نقص کا تذکرہ بھی خوبصورت پیرائے میں کیا ۔
بعد ازاں شاعرہ اسماء وارثی کو دعوتِ سخن دی گئی۔ انھوں نے کتاب سے کچھ سنانے کی بجائے اپنا نیا کلام سنایا اور خوب داد وصول کی ۔
پروگرام کے دوسرے حصے میں مزاح و کالم نگار اور صحافی مرزا یاسین بیگ کی کتاب ’دیسی لائف ان کینیڈا‘ پر گفتگو کا آغاز ہوا ۔ ڈاکٹر خالد سہیل نے تمہید باندھتے ہوئے کہا کہ گو کہ اس کتاب کو آئے ہوئے کچھ عرصہ بیت گیا ہے مگر کتاب اور مصنف اس بات کے مستحق ہیں کہ ان کی پذیرائی کی جائے ۔ اس کے بعد ڈاکٹر صاحب نے کتاب سے اپنے چنیدہ چند اقتباسات سنائے جس پر حاضرین بار بار قہقہے لگاتے اور تالیاں بجاتے رہے ۔ کتاب پر تبصرے کیلئے ٹورنٹو کے ادبی محافل خصوصا’’ فیملی آف دی ہارٹ کے ہردلعزیز مزاح نگار سید حیدر کو دعوت دی گئی۔ اپنے مخصوص انداز میں سید حیدر نے تبصرے کا آغاز کیا ۔ وہ کتاب کے انتساب ، کتاب میں شامل آٹھ شخصیات کے تبصروں کا پھلکا اڑاتے ہوئے دو مضامین کی نشان دہی تک محدود رہے ۔ ایسا لگا کہ وہ صحیح فارم میں نہیں تھے یا انھوں نے کتاب کا منیف اشعر کی طرح جم کر مطالعہ نہیں کیا تھا۔ انہوں نے کتاب سے وہ ایک کالم پورا پڑھ دیا جس میں چند دیسی لطیفوں کا استعمال کیا گیا تھا ۔ اس مضمون کو پڑھتے ہوئے انھوں نے تین بار زور دے کر کہا کہ یہ مقبولِ عام لطیفے ہیں ۔
تقریب اس وقت اپنے عروج پر پہنچی جب خالد سہیل نے مرزا یاسین بیگ کی کتاب ’دیسی لائف ان کینیڈا‘ پر تبصرے کیلئے مقبول افسانہ نگار ، نقاد اور ٹی وی شو کے میزبان بلند اقبال کو دعوت دی ۔ بلند اقبال نے کتاب کے دل پذیر ،قہقہہ بار اقتباسات کو اپنے مخصوص افسانوی اندازِ تحریر میں اس طرح پرویا کہ ہر ایک منٹ بعد تالیاں بجتی رہیں یا ہنسی کی آوازیں گونجتی رہیں ۔ انھوں نے اپنی تنقید کو اپنے اور یاسین کے درمیان تخیلاتی مکالمے کی صورت میں پیش کیا جو کار ڈرائیونگ کے دوران مزاح اور کتاب پر گفتگو کررہے تھے ۔ ان کا کہنا تھا کہ یاسین بیگ کے الفاظ اپنی ساخت میں بیک وقت ہنسانے اور رلانے کی طاقت رکھتے ہیں۔ اس طرح کے جملے لکھنا آسان نہیں ہوتا جو آپ کو ہنسائیں بھی اور سماجی تبدیلی کا سبب بھی بنیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ کبھی میری بھی ایک دیسی لائف ان امریکہ تھی جو مرزا یاسین بیگ کی دیسی لائف ان کینیڈا میں جگہ جگہ بکھری ہوئی ہے ۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یاسین بیگ کا طنز و مزاح میرے نزدیک ایک سنجیدہ ترین ادب ہے کیونکہ یہ معاشرتی ، سیاسی اور سماجی بداعتدالیوں کو موضوع بناکر ایک تعمیری فکر عطا کرتا ہے ۔ اس حوالے سے انھوں نے یاسین بیگ کے مضمون ’قائد اعظم محمد علی جناح کا خط یاسین بیگ کے نام ‘ سے ایک اقتباس سنایا۔ مضمون کا اختتام انھوں نے اس انداز میں کیا کہ کتاب کا ٹائٹل گویا ان کا سراپا بن گیا ہو۔ سچ تو یہ ہے کہ اپنی ندرتِ بیان کی باعث بلند اقبال نے محفل لوٹ لی ۔
جب مائیک صاحبِ کتاب تک آیا تو تقریب ختم ہونے میں صرف دس منٹ رہ گئے تھے ۔ یاسین بیگ نے تبصرہ نگاروں اور میزبانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنے مخصوص انداز میں کہا کہ کل کا دن اور آج کا دن بہت اہمیت کا دن تھا ۔ کل دنیا بھر میں ویلنٹائن ڈے اور ہمارے بیک ہوم میں حسب سابق وائی او لینٹ ۔ٹائن ڈے منایا گیا ۔ محبت کے دن بھی نفرت کے ہاتھوں بیس افراد ہلاک ہوگئے ۔
آج سال 2013 کا چھیالیسواں دن ہے ۔ آج ہی کے دن سال 1965 میں کینیڈا کا ریڈ اینڈ وہائٹ میپل کے پتے کے ساتھ وہ نیا پرچم ڈیزائن ہوا جو آج کل آپ دیکھتے ہیں ۔ آج ہی کے دن 1869 میں مرزا غالب کا انتقال ہوا تھا اور آج ہی کے دن فرشتے دیسی لائف کے بارے میں پوچھ گچھ کیلئے کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں تشریف لائے ہیں ۔ آخری الذکر کارنامہ فیملی آف دی ہارٹ کی فنونِ لطیفہ کے شائقین سے دلچسپی اور بڑے پن کا نتیجہ ہے ۔ میں ڈاکٹر خالد سہیل ، پرویز ڈی صلاح الدین اور فیملی آف دی ہارٹ کے ہر ممبر کا شکرگذار ہوں کہ انہوں نے میری تحریر کی قدر کی اور مجھے موقع دیا کہ وہ سوٹ اور ٹائی پہن کر آپ کے سامنے بیٹھ سکوں جو میں نے اپنی کتاب ’دیسی لائف ان کینیڈا‘ کے چھپنے کے ساتھ ہی حفظ ما تقدم سلوا لیا تھا مگر پہننے کا موقعہ آج ملا ۔
میں صاحب اولاد تو پاکستان ہی میں ہوگیا تھا مگر صاحب کتاب کینیڈا آکر ہوا کیونکہ جوانی پاکستان میں اور عقل کینیڈا آکر ملی ۔ لکھا پاکستان میں بھی بہت مگر اخبارات ، ریڈیو اور ٹی وی کیلیئے کمرشل تحریریں ۔ جو افسانے اور مزاح لکھا اسے کتابی شکل نہیں دے پایا ۔ وجہ؟ اطراف میں کتابی شکلوں اور کتابی چہروں کا ویسے ہی ہجوم رہتا تھا ۔ وہاں میں مڈل نیم یاسین سے جانا جاتا تھا یہاں فرسٹ نیم مرزا سے ۔ یاسین چھوٹا موٹا سا کنگ میکر تھا ، مرزا صرف ایک کمپنی کاتنخواہ دار میکر ۔ یہاں آکر بیوی بھی جاب کرنے لگی ۔ تنہائی اور عمر بڑھنے لگی تو کتابیں اور لفظ زیادہ اچھے لگنے لگے ۔ بقول ہمارے دوست علیل جبران کے ’کم عمری کی تحریر اور عشق دونوں بعد میں ہنسنے کا موقع فراہم کرتے ہیں ۔‘ اب ہر کوئی ڈاکٹر خالد سہیل جیسا خوش قسمت نہیں ہوسکتا جو جوانی سے اب تک ادب اور عشق کے میدان میں یکساں معیاری رفتار سے دوڑ رہے ہیں ، کم از کم ڈاکٹر صاحب کے قارئین کی آج تک کی یہی رپورٹ ہے ۔
اسماء وارثی کا نام میں نے صحافت کے حوالے سے تو سن رکھا تھا مگر ان کی شاعری آج کی شام سے پہلے تک حجاب میں تھی ۔
انھوں نے بلند اقبال کو مخاطب کرکے کہا کہ جیتے رہیئے آپ نے چن چن کر کتاب سے وہ سارے اقتباسات پڑھ دئیے جو میں نے حاضرین کو سنانے کیلئے ٹیگ کئے تھے ۔ وقت کی تشنگی کا سب کو سخت احساس ہوا اور حاضرین نے یاسین بیگ کی تحریر سے محبت کا یہ ثبوت دیا کہ روانگی کے وقت تقریبا” ہر ایک کے ہاتھ میں دیسی لائف ان کینیڈا مصنف کے دستخط کے ساتھ موجود تھی ۔
*****

yasinbaig-asmawarsi-group.jpg
yasinbaig2.jpg
asmawarsi.jpg
18group-yasinbaig.jpg
 
 

homepage.jpg