fina-sherosokhan-animat.gif

Jamil Zuberi Expired in Karachi

جمیل زبیری رخصت ہوئے

 

جمیل زبیری ۔         اب ہم بھی جانے والے ہیں سامان تو گیا

      ہوش و حواس، تاب و تواں داغ جاچکے      اب ہم بھی جانے والے ہیں، سامان تو گیا   

 متذکرہ شعر کے پہلے مصرعے میں درج کیفیات میں سے ان کا ہوش آخری دم تک سلامت رہا، 

بقیہ سامان تو گزشتہ بارہ برس میں رفتہ رفتہ رخصت ہوتا گیا تھا، اور بلاآخر ہفتہ 17 دسمبر 2011 کی رات نو بجے ریڈیو سے وابستہ رہے ادیب و مترجم جمیل زبیری نے گلشن اقبال کراچی میں واقع اپنے فلیٹ میں آنکھیں بند کرلیں۔ گزشتہ چند برس سے وہ شدید طور سے علیل تھے ، بستر سے اٹھنا بھی محال تھا۔ رات نو بجے ان کی طبیعت بگڑی ، ان کی اہلیہ پڑوس میں اپنی ایک عزیزہ کے شوہر کو بلا لائیں، سب لوگ انہیں لے کر قریبی واقع اسپتال کی طرف روانہ ہوئے لیکن راستے میں وہ اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ جو بیماری ان کی موت کا سبب بنی ، اسے انگریزی میں  cardiac arrestکہا جاتا ہے۔ کراچی میں واقع سی او ڈی کے قبرستان میں تدفین ہوئی۔کراچی کے کسی اخبار میں جمیل زبیری کے انتقال کی خبر شائع نہیں ہوئی۔ کینیڈا سے محترم سلطان جمیل نسیم نے جناب قمر علی عباسی کے توسط سے یہ خبر مجھ تک پہنچائی۔

 جمیل زبیری صاحب ، میری رہائش گاہ سے چند منٹ کے فاصلے پر مقیم تھے۔اکثر دفتر سے لوٹتے وقت قدم ان کی قیام گاہ کی جانب اٹھ جاتے تھے لیکن زیادہ دیر تک ایک بھرپور مجلسی زندگی گزارنے والے 85 سالہ شخص کی بے بسی کا عالم دیکھا نہیں جاتا تھا۔ نہ تو وہ بات کرسکتے تھے اور نہ چل پھر سکتے تھے، ایک بات جو حوصلہ افزا تھی وہ یہ کہ انہیں پڑھنے میں کسی دقت کا سامنا نہیں ہوتا تھااور اسی نعمت کے سہارے وہ اپنا وقت گزرا لیا کرتے تھے۔ ان کی اہلیہ نے اپنی بیماری کے باوجود ان کی وہ خدمت کی کہ خدا ہی اس کا صلہ انہیں دے سکتا ہے، انسان کے بس کی بات نہیں۔ ابھی دس روز قبل ہی کی تو بات ہے کہ میں نے سرشام جمیل زبیری صاحب کے پاس حاضری دی ، دروازے پر ان کی اہلیہ نے بتاتا کہ وہ سو رہے ہیں، واپس چلا آیا، خبر ہوتی تو مل لیتا۔ لیکن ایک خاکی انسان کو ان باتوں کی خبر کیسے ہوسکتی ہے جنہیں اللہ تعالی نے اپنے ہاتھ میں لے رکھا ہے۔

 راقم نے دو ماہ قبل بزم قلم پر جمیل زبیری صاحب کی تصاویر شامل کی جس پر لندن سے محترم

صفدر ہمدانی نے اپنے تبصرے میں کہا تھا :

’’آپ نے محترم و بزرگوار جمیل زبیری صاحب کا ذکر کیا۔ اللہ تعالی خلاف لوح و قلم انہیں صحت کاملہ عطاء کرے۔ جمیل زبیری سن ستر کے عشرے کے اواخر میں اسلام آباد د ریڈیو پر میرے پروگرام مینجرتھے۔ اس وقت میں سینیر پروڈیوسر تھا۔ وہ نہایت شریف انسان تھے ، ریڈیو کے نوے فیصد افسران سے بہت مختلف۔ اکثر جب دفتری اوقات کے بعد وقت ملتا تو وہ اپنی کوئی تازہ تخلیق سنا دیا کرتے تھے ۔سچ کہوں، ریڈیو پاکستان کے کارکنوں کی کتنی بڑی کھیپ ہوگی جنہیں جمیل زبیری کا نام بھی نہیں معلوم ہوگا۔ ‘‘

 جناب صفدر ہمدانی نے بالکل درست کہا تھا۔ ریڈیو اب جائے عبرت بن کر رہ گیا ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ ریڈیو سے وابستہ شخص نہایت باخبر ہوگا، سیاست پر گہری نظر رکھتا ہوگا، ادب سے خوب واقفیت ہوگی، شائستگی اس پر ختم ہوگی، خوش لباسی اس کی پیچان اور زبان کوثر و تسنیم میں دھلی ہوگی۔ قریب ایک برس گزرا جب راقم کو حسن اسکوئیر کراچی میں واقع پاکستان ریڈیو (ایف ایم) کے دفتر جانے کا اتفاق ہوا۔ پان کی پیکوں سے استقبال ہوا جو سیڑھیوں کے کونوں میں اپنی بہا دکھلا رہی تھیں۔عملے کے دو ارکان کے منہ میں گٹکا نظر آیا جو پان کی ایک بگڑی ہوئی نامراد شکل ہے ۔اسے کھانے والا آپ سے بات کرنے سے قاصر ہوگا اور آپ کی بات کے جواب میںہونٹوں کو سکیڑ، اپنا منہ آسمان کی طرف کرکے جواب دینے کی کوشش کرے گا۔ اس نامعقول چیز کو تھوڑی تھوڑی دیر بعد اگلنا بھی تو پڑتا ہے، اس کے لیے بار بار غسل خانے کا رخ کون کرے ، دیواروں کے کونے جو دستیاب ہیں۔

 اب ریڈیو میں زبانیں دھلی ہوئی نہیں، رنگی ہوئی ملتی ہیں !

وہ زمانہ لد گیا جب ریڈیو سے ایسے ایسے لوگ وابستہ تھے جنہوں نے ملازمت کو ملازمت نہیں بلکہ عبادت سمجھ کر کیا۔ اس دور کی اب صرف یادیں ہی باقی رہ گئی ہیں جنہیں ریڈیو کے لیے اپنی زندگی تج دینے والے چند اہل قلم اشخاص نے قلم بند کیا ہے۔ ریڈیو کی یاداشتوں میں زیڈ اے بخاری ، اخلاق احمد دہلوی، حمید نسیم، ابو الحسن نغمی ، جمیل زبیری، ناصر قریشی کی یاداشتیں اہمیت کی حامل ہیں۔ ان دنوں کراچی کے ایک اخبار میں انور سعید صدیقی اپنی ریڈیو کی یاداشتیں قلم بند کررہے ہیں ۔ اے حمید نے ریڈیو پاکستان لاہور کے ساتھیوں کے خاکے تحریر کیے ہیں جو ان کی کتاب ’چاند چہرے ‘میں شامل ہیں۔

 ریڈیو سے 15 ستمبر 1988 کو اپنی رفاقت کے اختتام کے بعد جمیل زبیری نے دس برس سیکریٹری مارکٹنگ ایسوسی ایشن آف پاکستان میں ملازمت کی، اس کے کچھ عرصے بعد تک وہ ایک اسکول میں شعبہ تدریس سے بھی وابستہ رہے۔ وہ 30 نومبر 1925 کو اتر پردیش کے ضلع ایٹہ کے قصبے مارہرہ میں پیدا ہوئے تھے۔ سینٹ جانس کالج آگرہ سے بی کی ڈگری صاصل کی۔ ان کے نانا حسن صدیق مارہروی ، شاعری میں ایک منفرد مقام رکھتے تھے۔ حسن صدیق مارہروی کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:

یہ کہہ کر حلق پر ظالم نے تیغ خونچکاں رکھ دی

مبارک ہو کہ بنیاد حیات جاوداں رکھ دی

------

تو دغا دے گی کہاں جانے مری عمر رواں

دھیمی دھیمی تری رفتار سے جی ڈرتا ہے

جمیل زبیری کی تصانیف میں زرد پتے (افسانے)، لمحوں کی دہلیز (افسانے)، موسموں کا عکس(سفرنامہ ہندوستان)، رینی(ناول) ، بلوچی لوک کہانیوں کا ترجمہ، مکران۔سفر اور سفرنامہ، مارگریٹ ٹروڈیو کی سرگزشت (ترجمہ)، رفتار حیات(خاکوں کا مجموعہ) ،دائمی مسرت کا حصول از برٹرینڈ رسل(ترجمہ)، دھوپ کنارا (لندن، کینیڈ اور امریکہ کا سفرنامہ)، اور ان کی خودنوشت یاد خزانہ شامل ہیں۔

 یوں تو یاد خزانہ کئی دلچسپ واقعات کا مرقع ہے لیکن کتاب مذکورہ میں جمیل زبیری نے سر جمال آف برما کے صاحبزادے جمال کا ذکر ایک الگ ہی ڈھنگ سے کیا ہے۔ سر جمال برما کے رہائشی تھے۔ ان کی زمین سے نکلنے والے تیل نے راتوں رات انہیں برما کے امیر ترین افراد کی صف میں لاکھڑاکیا تھا۔ برما شیل کا نام یقینناآج بھی لوگوں کے حافظوں میں محفوظ ہوگا۔ہزاروں گز پر پھیلا ہوا محل ، نوکر چاکر اور گاڑیوں کی قطاریں، سر جمال پانی کے کئی جہازوں کے مالک بھی بن گئے تھے۔ ان کے بیٹے جمال نے کم عمری میں موسیقی کی تعلیم محل میں آنے والے ایک استاد سے حاصل کی جو آنے والے وقت میں ان کا ذریعہ معاش بنی۔پھر یوں ہوا کہ سر جمال آف برما کا انتقال ہوگیا ۔جمال صاحب اس وقت کم عمر تھے ، ان کے چچاؤں نے جائیداد کے حصول کے لیے مقدمے بازی کا آغاز کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے حالات نے کچھ ایسا پلٹا کھایا کہ جمال صاحب کو برما چھوڑ کر کسمپرسی کے عالم میں کراچی آنا پڑا۔ وہ ریڈیو پاکستان کراچی میں ایک معمولی اسٹاف آرٹسٹ کی حیثیت سے ملازم ہوئے۔ دوران ملازمت وہ کسی سے بات نہیں کرتے تھے، اپنا دکھ دل میں چھپا رکھا تھا۔ تنخواہ بہت ہی قلیل تھی، اخراجات پورے کرنے کی غرض سے رات کے وقت کراچی کے ایک ہوٹل میں پیانو بجایا کرتے تھے ۔ رہائش لالو کھیت (اب لیاقت آباد) میں واقع ایک کمرے میں تھی۔بقول جمیل زبیری، زندگی بھر ان کی بدقسمتی ان کے ساتھ رہی۔ جمیل زبیری ان کے واحد غمگسار تھے اور ان کے حال سے بخوبی واقف بھی۔پھر ایک روز کچھ عرصہ بیمار رہنے کے بعد سر جمال آف برما کے اکلوتے بیٹے جمال ، بے بسی و بے کسی کے عالم میں چپ چاپ اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔

آئیے اس شخص کی مغفرت کے لیے ہاتھ اٹھاتے ہیں جو جمیل زبیری کہلاتا تھا!

sub_titles_of_bar.jpg

z-a-bokhai-and-jameelzuberi-19feb1971.jpg
Z. A. Bokhari and Jameel Zuberi 19 Feb 1971
raees-amrohvi-and-jameelzuberi.jpg
Raees Amrohvi and Jameel Zuberi
jameelzuberi-ajj.jpg
Jameel Zuberi
hajra-sroor-and-jameelzuberi-1979.jpg
Hajra Sroor and Jameel Zuberi
26july1976-majnoon-gorakhpuri-left-shabnam-romani-right.jpg
july 26, 1976- Majnoon Gorakhpuri left Shabnam Romani- right

homepage.jpg