fina-sherosokhan-animat.gif

Bazme Mohibbane Sukhan, Checago ka Eid Milan Mushaira

بزم محبان سخن کا عید ملن مشاعرہ

بارگاهِ خداوندی میں سب سے پہلے ہم انکساری و عاجزی سے ایک ساتھ  دست بہ دعا ہیں غیرملک میں ہمیں یہ توفیق عطا ہے کہ اپنے مذہب تہذیب و زبان کو رائج رکھنے کی سہولتیں میسر ہیں شعروادب کا یہ گاؤں نظر میں آسمان اورپلکوں پر کہکشاں رکھنے کے برابر ہے۔

 وقت کم اور کوسوں  دور جانا   ہے         منزل کے  تمنائی  ہرحال  میں  جاتے ہیں         

 ہم تو خون اپنا چراغوں میں جلاۓ جائیں     اس  سے  کیا  صبح  کو  تنویر ملے   نہ ملے        

 

بزم محبان سخن نےبتاریخ ١٣نومبر ٢٠١١ع کو بمقام گلینڈیل ہلئیٹس الینوۓ کی لائیبریری کےوسع ہال میں ایک خوش رنگ افشان محفل سخن عید الضحیٰ کے پربہار موقع پر منعقد کی اردو کی نئی بستیوں میں اضافہ ایک خوش آئیند اطلاع ہے۔

اردوکےنامقبول اور مشاعروں کے مقبول دورمیں شکر الحمدوللہ مطبوعات مخطوطات نثرونظم نہ صرف کام کیا جارہا ہےبلکہ صاحبان علم وفکروفن مسلسل محوجستجو بھی ہیں۔

شعروسخن کے قدیم وعمیق رشتے کےپیش نظرادبی محافل ومشاعرےاردوشاعری کے حق میں ایک نیک شگون ہے زبان و بیان کے علوم پر کامل دستگاہِ شاعری کسی دھنک رنگ سے کم نہیں جبکہ اردو اپنے ملکوں میں جس دور پر کھڑی جبروبےانصافی جھیل رہی ہے۔

ایک مسلسل دوڑ میں ہیں منزل  و  فاصلے

پاوں  تو  اپنی  جگہ  ہیں  راستہ  اپنی  جگہ

اپنی انفرادی خوبیوں اور امتیازی خصوصیتوں کے ساتھ شکاگو کے نامور میزبان شعراہ کے ساتھ بزم محبان سخن کی شمع دوپہردو بجے سے روشن ہوئی اور پانچ بجے اختتام کو پہنچی۔

عید الضحیٰ کی پرمسرت ساعتوں میں مشاعرے کی دلکشی جیسے ہوا کی راہ پر رکے ہوۓ چراغ جل اٹھے ہوں بزم محبان سخن نے عیدملاپ کا خاصہ خیال رکھتے ہوۓ پر تکلف انتظام کیا مشاعرے کی شمع روشن ہوئی جیسے شاخ شجر پر ایک نیا سرخ گلاب کھلا. کنوینرڈاکٹر افضل الرحمن افسر نے اپنے خوش آئینہ ارادوں سے تخلیقی سفر کے دبیز رنگوں اور گردوپیش کے حالات پرگہری نظر رکھتے ہوۓ گفتار کا سلسلہ جاری رکھا ، اردو کے عام کرنے پر روشنی ڈالی ۔۔تین ملکوں کی اس کہانی میں اردو زبان سوالیہ نشان بننے کے بجاۓ ایک ایسا رابطہ بنے جو اردواور انگریزی کے درمیان ایک معاون پل بنے اورپھر اپنے کلام سے نوازا۔

ضیا پاشی سے  شمع  علم  کچھ  مدھم  نہیں  ہوتی

یہ وه دولت ہے جو اصراف سے بھی کم نہیں ہوتی

اسکے بعد ناظم مشاعرہ حشمت سہیل کے آگے شمع فروزاں رکھی گئی

میری زندگی یہی ہے کہ ہر ایک کو فیض پہنچے

میں چراغ راہ گزر ہوں  مجھے  شوق سے جلاؤ

جب زندگی بے دردی سے کچلی جائیگی تو شاعر خاموش نہ رہ سکیگا خوه وه داخلی سطح پرہو یا خارجی زخموں کو گلہاۓ خنداں بناتے ہوۓ اپنے غم کو جمالیاتی اسلوب عطا کرنے والے محترم عبدالرحیم طالب کو دعوت سخن دیگئی طالب صاحب فرماتے ہیں۔

بجلی  ہے کبھی  طوفان ہے کبھی یا موج  طلاطم  کے  حملے

مقصد  ہے  ہماری   بربادی   سامان  بدلتے  رہتے  ہیں

محترم ولی الدین ولی- آدھے میمن آدھے حیدرآبادی کے ٹکنیکی تجربےموضوع اورطرزاظہار کی جدت کے ساتھ محاورے کا پر لطف استعمال ملاحظہ ہو۔

سچ بولے تو برا ہے حال جھوٹ کو دیکھو ہے مالامال

سچ کہتے ہیں بزرگ ہمارے نیکی کراور دریا میں ڈال

مشاعرے کی کاروائی بڑھاتے ہوۓ محترم حشمت سہیل اپنی بر موقع تمہید اور ادیبوں کے لطیفے سناتے ہوۓ آگے بڑھے اور اپنا خود مزاحیہ کلام پیش کرکے خوب داد تحسین حاصل کی۔

بزرگوں نے دعائیں تو بہت دیں مگر اسکا اثر الٹا  ہوا

دعا تھی اک بہت پھولوپھلو نتیجہ سامنے ہے رکھا ہوا

محترم شہزاد ہاشمی یوں رقمطراز ہوۓ۔

بے مہرئ   ارباب   وفا   دیکھ   رہا  ہوں

منڈلاتی  ہوئی  سر  پہ  قضا  دیکھ  رہا  ہوں

محترم شاہد علیگ بہ نفس نفیس اپنا ستھرا کلام پیش کرنے کےلئے تشریف لاۓ۔

آج  اپنے   پیار  کی  قیمت  کا  اندازہ  ہوا

بے چارہ   پیار کی  آغوش  میں  پیدا  ہوا

داد تحسین کا سلسلہ یک کے بعد دیگرے جاری و ساری رہا محترم اعراج احمد نے وقفے کا اعلان کیا پندرہ منٹ کے وقفے کے بعد محترم ساجد چودھری پنجابی اور اردو دونوں زبانوں کے شاعرکو حشمت سہیل صاحب نے دعوت سخن دی پنجابی میں کہا

واء  ویکھی   پانی  پنیا  توں

پل  جمن  مرن د ا  جنیا توں

ڈاکٹر منیرالزماں منیر فرماتے ہیں۔

میں ڈوبتے سورج سے ضیاء مانگ رہا ہوں

تو ہے کہ اجالوں میں بہت دور کھڑی ہے

 

ڈاکٹرتوفیق انصاری احمد عروض و آہنگ کے ساتھ اپنی فکر لفظیات اور طرزاظہار میں جدیدیت کی طرف مائل فرماتے ہیں

 

دل کے اندرہو محبت کا سمندر موج زن

آدمی کے سامنے  آدمی  کی  ذات  ہو

تخلیق انسان کے آبناۓ خیالات میں جنم لیتی ہے اور تخلیق کاراپنی ذات سے باکل آزاد ہے مشاہدہ تجزیہ چاہتا ہے اور تجزیہ زندگی کا شعور طلب کرتا ہے حشمت سہیل صاحب نے خاتون شاعرات کا ذکر کرتے ہوۓاردو اور دکنی بولنے والی محترمہ غوثیہ سلطانہ کو دعوت سخن دی غوثیہ نے کہا شعرو سخن کے محافل بے شک ہوں لیکن ہمارا فرض اولین اپنی آنے والی نسلوں تک اس زبان کوپہچانا ہےاسکے لئے انگریزی عربی تعلیم کے ساتھ ساتھ اردو بھی سکھائ جاۓ۔

ہم وطن سے دور ہیں  وطن ہم  سے دور نہیں

سوچو  تو  فاصلے ہیں ورنہ  دوریاں کچھ بھی نہیں

اور دکنی میں کہا ۔۔۔۔

آئیں بی انوں گینی بی انوں یہ کیسا  آنا  تھا

اتتی  جلدی  تھی   تو   کائیکو  آنا   تھا

حیا   والے  تو  منٹوں  میں   اکھڑتیں

ان   کو   کیا   کی   سو  برس  رہنا  تھا

سچی شاعری وہی ہے جہاں مواد اور ہئیت کی وحد ت ہو تصور براۓ شعر گفتن خوب است بزرگ صدربزم محبان سخن محترم منیر صدیقی شرر  یوں رقمطراز ہیں۔

راحت جاں ہے یا مصیبت ہے

کوئی تہمت  نہیں  حقیقت ہے

با وفا  ہو  تو  شہکار حیات

بے وفا ہو تو صرف عورت ہے

احساس اور ادراک ہم آہنگ ہو تو غزل ہوتی ہےاردو شاعری میں نئے تجربے کئے جارہے ہیں لیکن سہل ممطنع میں شعر کہنا سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے برابر ہے صدر مشاعرہ جناب نیاز گلبرگوی کو اس پر ید طولیٰ حاصل ہے شعر کے  پارکھ اورشاعر گرفرماتے ہیں۔۔۔

زحمت حاجت روآئی کیجئے       درد کی میرے دوآئی کیجئے

آپ بے شک کج ادائی کیجئے     ترک مت اب آشنائی کیجئے

آخر میں محترم اعراج احمد نے پر خلوص شکریہ ادا کیا اور شام پانچ بجے لائبریری کا وقت ہوا چا ہتا تھا محفل اختتام کو پہنچی  

 

رپورٹ: غوثیہ غیاث الدین  . کیرل اسٹریم . الی نا ۓ

 

 

100_0805-ch.jpg
100_0827ch.jpg
100_0819-ch.jpg
100_0844ch.jpg
100_0858ch.jpg
100_0863ch.jpg
100_0877.jpg
100_0875.jpg
organizer.jpg

homepage.jpg